”بے ایمان“

کیلاش قبیلے کا ذکر پچھلے دنوں اخبارات میں اس حوالے سے آیا کہ انہیں طالبان کلاشنکوف برادر شریعت کی جانب سے اسلام کی قبولیت کا پیغام پہنچا‘ اسلام قبول کر لو یا پھر مرنے کے لئے تیار ہو جاﺅ ‘ یورپ کے اہل قلم ایک ہزار سال سے لکھنے میں مصروف ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا لیکن وہ ناکام رہے۔ اب ان کی ساری تحریروں کے مقابلے میں طالبان کا محض یہی ایک پیغام ہی بھاری دکھائی دے رہا ہے۔ کیا موت کے خوف میں اسلام قبول کرنے والے مسلمان ہوتے ہیں؟ پھر منافقین کون ہوتے ہیں۔ کیلاش قبیلے کے حوالے سے ایک اور خبر بھی پچھلے دنوں اخبارات کی زینت بنی۔ چترال کی حسین برف پوش وادیوں میں ہزاروں سال سے رہنے والے کیلاش لوگ اپنی مخصوص ثقافت اور طرز زندگی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ یہ پُرامن لوگ اپنے گرد و پیش سے لا تعلق اپنے طور طریقوں سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیلاش لوگ مرد کی موت پر تین روز تک جشن مناتے ہیں۔ اس تقریب میں پچاس سے لے کر سو تک بکرے تک ذبح کئے جاتے ہیں۔ دیسی گھی‘ پنیر اور دودھ والے پکوانوں کے ساتھ ساتھ مہمانوں کو دیگر روایتی کھانے بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ ان کی موت کی تقریب میں ایک جشن کا سماں ہوتا ہے۔ بچے کی پیدائش پر سبھی لوگ خوشیاں مناتے ہیں لیکن کیلاش مرنے والے کو بھی خوشی خوشی رخصت کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ مرنے والا شاداں و فرحاں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ا س موقعہ پر مرنے والے کے مرد رشتہ دار ڈھولک بجاتے ہیں۔ خواتین ایک دوسری کے کندھوں پر ہاتھ دھرے روایتی رقص پیش کرتی ہیں عمر رسیدہ مرد اپنے ہاتھوں میں کلہاڑی ‘ تلوار یا کوئی چھڑی پکڑ کر ناچتے ہیں۔ اس طرح سبھی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں وادی بمبوریت کے بروم گاﺅں میں 120 سالہ جوشاکیلاش کا انتقال ہوا۔ اس موقعہ پر پچاس بکرے ذبح کئے گئے۔ اس لمبی داستان میں سنانے والی قابل غور بات یہ ہے کہ یہ بکرے علاقہ میں رہنے والے مسلمانوں سے ذبح کروائے جاتے ہیں۔ تاکہ یہ گوشت مقامی مسلمان بھی کھا سکیں۔ یہ ان کی مسلمانوں سے روداری کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ مسلمانوں کی شریعت میں غیر اللہ کے نام سے ذبح کیا ہوا گوشت حرام ہے۔ کیلاش لوگوں کی شریعت کیا ہے؟
 ہم نہیں جانتے لیکن ہمیں وہ لوگ حضرت بلھے شاہ کے ہم مشرب دکھائی دے رہے ہیں۔
چھڈ ملاں تڈھ شرع تیری
شرع نال فقیراں دے رہئی ہوئی اے
تینوں اپنی شرح دا خیال ملاں
سانوں یار مناﺅنے دی پئی ہوئی اے
ترجمہ: ملاں اپنی شریعت کو پرے رہنے دو‘ ہم شریعت کو خوب جانتے پہچانتے ہیں۔ تمہیں اپنی شریعت کا خیال ہے اور ہمیں اپنے یار کو منانے کا خیال درپیش ہے۔ یاد رہے ان وحدت الوجود عقیدہ رکھنے والے درویشوں کا یار خدا بھی ہے اور اس کی مخلوق بھی ان کی شریعت میں سب سے بڑا گناہ خدا کی مخلوق کی دل آزاری ہے۔ یہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کو ہی اللہ کی عبادت سمجھتے ہیں پھر ان مجالس میں ہر مذہب و ملت کے لوگ آن بیٹھے ہیں۔ کھڑی شریف کے عارف نے بھی کچھ ایسی بات کی تھی۔
مسجد ڈھا وے‘ مندر ڈھا دے جو کجھ ٹہندا
اک بندے دا دل ناں ڈھائیں‘ سوہنا رب دلاں وچ رہندا
ترجمہ: بے شک مسجد اور مندر کو توڑ پھوڑ دے‘ لیکن کسی انسان کا دل مت توڑنا کہ میرا سوہنا رب اپنے بندوں کے دلوں میں بستا ہے۔ یہ درویش بلاتمیز رنگ و نسل اور مذہب و ملت کسی بندے کا دل جیت لینا ہی حج اکبر سمجھتے ہیں ایکدوسرے کے مذہب و عقائد و رسم و رواج کا احترام ہی انسان دوستی ہے۔ مذہبی رواداری اور برداشت کی انسانیت کو جتنی آج ضرورت ہے‘ اتنی انسانی تاریخ میں کبھی بھی نہ تھی۔ آج کے ایٹمی دور میں پوری انسانیت اسلحہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہوئی ہے۔ قیامت لانے کے لئے ایک ننھی منی سی چنگاری ہی کافی ہے۔ کمالم کا آغاز کیلاش قبیلے کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دینے سے ہوا۔ یہ دعوت قبول نہ کرنے کی صورت میں کیا ہو گا؟ طالبان اپنے اسلامی ”دعوت ناموں“ میں یہ لکھنا کبھی نہیں بھولتے۔ مجھے پرامن کیلاش قبیلے کو کلمہ پڑھانے سے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ایک مشہور اسلامی مبلغ جاپان اسلامی تبلیغ کے مشن پر تشریف لے گئے۔ ان کے میزبان نے ان سے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ حضور آپ یہاں جاپانیوں کو مسلمان کرنے آئے ہیں۔ آپ کیوں سمجھتے ہیں کہ انہیں تبلیغ کی ضرورت ہے؟ دیکھئے ناں! ان میں وہ سارے فضائل پائے جاتے ہیں جو ایک مسلمان میں ہونے چاہئیں۔ سچ بولتے ہیں۔ وعدہ کا پاس کرتے ہیں وقت کی پابندی ان کا ایمان ہے۔ پورا تولتے ہیں پورا ناپتے ہیں۔ ایک دوسرے کو دھوکہ نہیں دیتے۔ اک دوسرے کے ادب احترام میں دہرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اب اس کے بعد کیا رہ جاتا ہے جس کی آپ تبلیغ کرنا ضروری سمجھتے ہیں‘ جواب میں حضرت مولانا فرمانے آپ درست کہہ رہے ہیں‘ میں اسی لئے تو کہتا ہوں کہ اگر یہ کلمہ پڑھ لیں تو کھرے جنتی ہو جائیں‘۔ میزبان جھٹ بولا:‘ لیکن سرکار مجھے شبہ ہے‘ جس دن جاپانیوں نے کلمہ پڑھ لیا‘ اس دن سے بھی ہماری طرح ”بے ایمان“ ہو جائیں گے۔
پس تحریر: ممبر قومی اسمبلی جمشید دستی نے پارلیمنٹ لاجز میں شراب شباب کی محفلوں کا ذکر کیا ہے تو کچھ اچھا نہیں کیا۔ کچھ باتیں نہ کرنے کی ہوتی ہیں یہ سب کچھ ہم سب پہلے سے ہی جانتے ہیں۔ ہم من حیث القوم یہ سب کچھ قبول کر چکے ہیں۔ ہم سب کچھ جانتے بوجھتے اپنے ان پیاروں کو پارلیمنٹ ہاﺅس بھجواتے ہیں۔ رہا آئین کے آرٹیکل 63,62 کا معاملہ‘ یہ آرٹیکلز ہمارے آئین کا ڈیکوریشن پیس ہیں‘ کسی ڈیکوریشن پیس کی افادیت محض اس کی خوشنمائی ہوتی ہے۔ ایک ڈیکوریشن پیس صرف اچھا دکھائی دیتا ہے اور بس ۔

ای پیپر دی نیشن