طالبان کی ایک ماہ کی جنگ بندی دھوکہ دینے کی کوشش ہو سکتی ہے: جرمن میڈیا

برلن/ پیرس/اسلام آباد (اے پی اے) پاکستانی طالبان کی جانب سے ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کے اعلان پر مختلف قسم کے تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ کہیں اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے تو کوئی اسے حکومت کو دھوکہ دینے کی کوشش سے تعبیر کر رہا ہے۔جرمن میڈیا ڈبلیو ڈی ای کے مطابق طالبان کے اعلان پر متعدد حلقوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ طالبان کمزور ہو گئے یا خود کو منظم کرنا چاہتے ہیں، مشروط جنگ بندی دھوکہ دہی سے تعبیر ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق متعدد حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا کسی ایسی تنظیم کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے، جو پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتی؟  شدت پسندوں کی یہ پیشکش خود کو منظم کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔عارضی جنگ بندی کے عمل کی نگرانی بہت ہی دشوار ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ طالبان مختلف دھڑوں میں تقسیم ہیں اور ان میں سے کچھ حلقے امن بات چیت کے مخالف ہیں۔ امریکی میڈیا نے مزید کہا کہ ہفتے کے روز خیبر ایجنسی میں ہونے والی خونریزی اس کی ایک مثال ہے۔ سلامتی امور کے ماہر امتیاز گْل نے فرانسیسیی خبر رساں ادارے سے باتیں کرتے ہوئے اسے دھوکہ دہی سے تعبیر کیا اور کہا کہ ’’ایسا لگتا ہے فوج کی بمباری کے بعد طالبان فائر بندی کا اعلان کرنے پر مجبور ہوئے ۔ یہ خطرہ ہمیشہ موجود رہے گا کہ طالبان ایک ماہ کا یہ عرصہ خود کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے استعمال کریں۔ حکومت کو اس سے نقصان ہو سکتا ہے‘‘۔فاٹا نامی ایک آزاد تھنک ٹینک کے سربراہ سیف اللہ محسود کے بقول ایسا ممکن ہے کہ اس دوران طالبان اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کریں۔ حکومت کیلئے یہ بہت نازک لمحہ ہے کیونکہ طالبان اس وقت کو حکومت کے خلاف بھی استعمال کر سکتے ہیں ‘‘۔

ای پیپر دی نیشن