جمشید دستی نے ممبر پارلیمنٹ ہوتے ہوئے پارلیمنٹ پر بڑا حملہ کیا ہے۔ کیا یہ خود کش حملہ ہے؟ جو کچھ پارلیمنٹ لاجز میں ہو رہا ہے آج کل تو نہیں ہو رہا ہے۔ وہ تو پہلے سے ہو رہا ہے اور دستی صاحب بڑی دیر سے ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ کئی لوگوں کو عادی مجرموں کی طرح ممبر پارلیمنٹ بننے کی بری عادت ہے۔ پہلے کیوں دستی صاحب خاموش تھے۔ شاید پہلے وہ خود اس ’’کار خیر‘‘ میں شریک ہوں گے۔ سب بچے کھیلتے رہتے ہیں۔ جب کسی بچے کو نہیں کھیلنے دیا جاتا تو وہ سارا کھیل ہی خراب کر دیتا ہے۔ کھیل ختم پیسہ ہضم۔
سپیکر اسمبلی ایاز صادق ہائوس کے بلکہ ایوان کے کسٹوڈین ہیں۔ وہ تو بولے اور تحقیقات کے لئے بات کی مگر ن لیگ کے ممبران کیوں بپھر گئے ہیں۔ دوسری پارٹیوں کے ممبران نے کوئی بیان بازی بھی نہیں کی۔ اصل میں سرکاری پارٹی کے ممبران کو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ وہ غیرقانونی اور قانونی کی حدود سے ماوریٰ ہوتے ہیں۔ ان کی گاڑیوں پر سبز پلیٹ پر ایم این اے لکھا ہوتا ہے۔ وہ شراب اور شباب آور سمگلنگ کا سامان لے جا سکتے ہیں۔ اس میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ دونوں کی باریاں مقرر ہیں۔ ن لیگ والے ذرا زیادہ نادان ہیں۔ پیپلز پارٹی والے بھی کم نہیں ہیں۔
مگر جمشید دستی کے الزام کے حوالے سے پیپلز پارٹی والے معنی خیز انداز میں خاموش ہیں۔ اس حوالے سے بھی ن لیگ کے ساتھ ساتھ ہیں۔ اصل لوگ انہی دونوں پارٹیوں کے ہیں۔ وہ لوگ بھی جو پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں سے تحریک انصاف میں گئے ہیں۔ عمران خان کی رسائی تو انڈین اور برٹش پارلیمنٹ تک ہے۔ برٹش پارلیمنٹ کی بات آئی ہے تو بات گورنر پنجاب چودھری محمد سرور تک جائے گی۔ وہ بہت پینڈو اور ریت روایت کے آدمی ہیں جو آدمی دیہاتی پن کے بانگپن سے سجا ہوا ہو اس پر شہری قسم کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ چودھری سرور اس قسم کے سوال پر شرما تو جائیں گے مگر اپنی پارلیمنٹ کی شرمندگی کی بات نہیں ہونے دیں گے جس کے وہ ممبر رہے ہیں۔ پاکستانی پارلیمنٹ کے ارکان کو بھی سمجھائیں۔
اب بال ایاز صادق کی کورٹ میں ہے۔ اللہ کرے بات سپریم کورٹ تک نہ چلی جائے۔ اس معاملے میں بھی فکر کی کوئی بات نہیں ہے کہ آج کل چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نہیں ہیں۔ انہوں نے عدالت اور سیاست بلکہ حکومت کو گڈ مڈ کر دیا تھا۔
چیف جسٹس تصدق جیلانی سات ججوں کے ساتھ مزار قائد پر حاضر ہوئے مگر اس بیش بہا جگہ کو قحبہ خانہ بنانے کی خبر کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ سو موٹو نوٹس بھی نہیں لیا گیا ہے۔ خواہ مخواہ بدنامی ہوئی اور کچھ بھی نہ ہوتا۔ کچھ عرصے بعد وہی کچھ ہونے لگتا جو ہوا تھا۔ پارلیمنٹ لاجز میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے ہوتا رہے گا۔ خبریں آتی جاتی رہیں گی۔ میڈیا کا کام بھی یہی ہے۔
یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے
جمشید دستی نے جو باتیں کہی ہیں وہ کس شعبے، دفتر، ہوٹل، ریسٹ ہائوس، مخصوص بنگلوں کے بارے میں نہیں کہی جا سکتیں۔ شراب نوشی اور شباب جوشی کہاں نہیں ہوتی۔ بلکہ کہاں کہاں نہیں ہوتی۔ اس کام کو کسی ملک میں کسی شہر میں کسی جگہ روکا نہیں جا سکا۔ شراب نوشی تو اب عام ہے۔ اسے خاص بنانے کے لئے وہ کام کیا جاتا ہے۔ جو دستی صاحب نے کیا ہے۔
جمشید دستی کے لئے ایک رعایت سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کی تھی۔ جعلی ڈگری کا ثبوت خود دینے کے بعد دستی صاحب کو استعفی دینے کا مشورہ عدالت کی طرف دے دیا گیا اور دوبارہ الیکشن لڑنے کی بھی اجازت دے دی گئی۔ ورنہ کئی ممبران کو جعلی ڈگری کی وجہ سے قید کی سزا بھی سنائی گی ہے۔ نااہل کیا گیا۔ بے چاری عائلہ ملک کے لئے میانوالی کی آبائی سیٹ عمران خان نے چھوڑی مگر…؟ عائلہ کا کزن بھی ہار گیا۔ اس کی بہن سمیرا ملک الیکشن جیتنے کے بعد نااہل ہوئی مگر ٹکٹ نواز شریف نے اس کے بیٹے کو دے دیا اور وہ جیت گیا۔ خدا کی قسم وہ ممبران اسمبلی بھی نااہل ہیں جن کے پاس اصل ڈگریاں ہیں جن پر جمشید دستی نے الزام لگایا ہے۔ ان کی ڈگریاں بھی اصل ہیں۔
ایاز صادق نے کہا کہ یہ وہی جمشید دستی ہیں جو گدھا گاڑی پر بیٹھ کر اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے عدالت پہنچے جبکہ ان کے پاس پجیرو بھی ہے۔ اگلے الیکشن میں وہ خود گدھے پر بیٹھ کر عدالت پہنچیں گے۔ شاید کبھی انہیں گدھے پر بٹھا کر عدالت پہنچایا جائے۔ انہیں میڈیا کے لئے ہاٹ کیک بننے کا بڑا شوق ہے اللہ کرے دستی صاحب کے ساتھ وہ نہ ہو جو گدھے پر بٹھا کر بستی کے لوگ کرتے ہیں۔ بستی اور پستی دستی کے ہم قافیہ ہیں۔ مگر اس موقعے کے لئے ایاز صادق نے بدمستی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ سستی شہرت کا طعنہ بھی دیا گیا ہے۔ لوگ پوچھتے پھر رہے ہیں کہ یہ کونسی شے ہے جو سستی ہے۔ مگر اب شہرت واقعی سستی ہو گئی ہے۔ جمشید دستی نے منوں کے حساب سے خرید لی ہے۔ وہ مڈل کلاسئے تھے۔ اب کروڑ پتی ساتھی ممبران کے ’’کلاس فیلو‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ گلاس فیلو تو بن چکے ہوں گے۔ یہ الزام کوئی ساتھی ہی لگا سکتا ہے گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ اس میں ان کا گھر بھی نہیں بچے گا۔ گھر تو نیا اور بڑا تعمیر کروا لیا جائے گا۔
رانا ثنااللہ نے سوچنے پر مجبور کرنے والی بات کہہ دی ہے۔ مزا تو تب تھا کہ دستی صاحب بہادر بنتے۔ کسی ممبر اور پارلیمنٹ لاجز میں متعلقہ کمرے کا بھی بتاتے۔ مطلوبہ کمرہ ان کے کمرے کے ساتھ ہی ہو گا۔ ایک کھوجی پولیس پارٹی کو ساتھ لے کے چور کی نشاندہی پر نکلا ہوا تھا۔ چلتے چلتے وہ بولتا جاتا تھا۔ آخری جملہ یہ تھا کہ یہاں چور کے ہاتھوں سے سونے کے زیورات کی پوٹلی گر پڑی اور میں وہاں گر پڑا۔ پولیس نے فوراً اسے ہتھ کڑی لگا دی۔ ٹانگہ آیا کچہریوں خالی تے سجناں نوں قید ہو گئی۔ ایاز صادق کہتے ہیں کہ اگر یہ سب کچھ جھوٹ نکلا تو ایوان دستی صاحب کی سزا کا فیصلہ کرے گا۔ ایوان نے پہلے ایسا کوئی فیصلہ کیا ہے؟ سرکاری مہمان تو جھوٹ کو سچ ثابت کر دیتے ہیں۔ سچ کو جھوٹ ثابت کرنا تو ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بائیں ہاتھ سے وہ بڑے کام کرتے ہیں۔
خود کو نقصان پہنچانے والی بات ن لیگ کے وزیر مملکت عابد شیر علی نے کی ہے۔ جمشید دستی پارلیمنٹ کی وینا ملک ہیں تو پھر وینا ملک کون ہے؟ عابد شیر علی دلیر آدمی تو ہیں یا نہیں ہیں۔ دیدہ دلیر ضرور ہیں۔ بجلی چوری کی بات تحریک انصاف کے لئے کی ہے اور کرنٹ اپنے لیڈروں کو لگوائے ہیں۔ پارلیمنٹ کی خواتین ممبران سراپا احتجاج ہونے والی ہیں کہ ہمیں خواہ مخواہ بدنام کیا جا رہا ہے۔ جمشید دستی کو وینا ملک کہنا ہمیں گالی دینے کے مترادف ہے۔ اس نے مولانا طارق جمیل کے ہاتھ پر بیعت کر کے عمرہ بھی کر لیا ہے۔ اور میک اپ کرنا بھی چھوڑ دیا۔ جبکہ خواتین ارکان نے ابھی تک میک اپ نہیں چھوڑا۔ عابد شیر اپنے الفاظ واپس لے۔ خواتین ممبران اسمبلی نے جمشید دستی سے بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے خواہ مخواہ ممبران اسمبلی پر غلط الزام لگایا ہے۔ یہ ہماری توہین ہے۔ جمشید دستی کے لئے ایاز صادق کے حکم پر ایوان کوئی سزا تجویز کرے تو اس بات کا بھی خیال رکھے۔
برادرم جاوید صدیق نے دارالحکومت سے نوائے وقت میں لکھا ہے۔ ’’اسلام آباد کے اتنے پوش علاقے میں بہت کم کرائے پر محفوظ اور اعلیٰ رہائش گاہیں ہونے کی وجہ سے کئی وزراء بھی یہاں رہتے ہیں۔ جب اسمبلی نہ تھی تو افسران اور صحافی بھی یہاں رہتے تھے۔ شراب و شباب کا کاروبار کرنے والے کہتے ہیں کہ یہاں ہمارا کاروبار خوب چمکتا ہے۔ ایاز صادق بتائیں کہ سخت سکیورٹی کی وجہ سے شراب اور شباب کس طرح پہنچتی ہے۔ جبکہ ممبران یہاں آنے والوں اور آنے والیوں کا نام دیتے ہیں۔ جاوید صدیق نے لاجز کے واحد کے طور پر ’’لاج‘‘ لکھا ہے تو ایاز صادق اب اپنی پارلیمنٹ کی لاج رکھیں۔ جمشید دستی سے دست و گریباں ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ نقصان کا بھی خطرہ نہیں ہے۔ اشرافیہ کے لئے بددعائیہ کا خطاب بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ مخلوق نفع نقصان اور عزت بے عزتی سے ماوریٰ ہے۔