بڑی دیر کے بعد ایک اچھی خبر آئی ہے۔ پاکستان میں بھی میرٹ پر معاملات ہوتے ہیں۔ کوئی جینوئن اور اہل آدمی کسی ادارے میں لگایا جا سکتا ہے۔ حیرت ہوئی تھی جب ”حضرت صدر“ زرداری نے جسٹس بھگوان داس کو فیڈرل پبلک سروس کمشن کا سربراہ بنایا تھا۔ اب نواز شریف نے بہت اعلیٰ علم و فضل والی بہت پڑھی لکھی اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی کے معانی مرتب کرنے والی گریس فل خاتون ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی کو اسلامی نظریاتی کونسل کی ممبر بنایا ہے۔ وہ عالم اسلام اور پاکستان کے لئے درد دل رکھنے والے شفیق اور بہادر انسان امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی صاحبزادی ہیں۔ اپنے عظیم والد کی تصویر ہیں اور ان کے تصور زندگی کے مطابق عمل کرنے والی خاتون ہیں۔ وہ ممبر قومی اسمبلی بھی تھیں۔ ان کی موجودگی وہاں نسوانی وقار اور اعتبار کی علامت تھی۔ انہوں نے میرے ساتھ ایک گفتگو میں اپنے والد قاضی صاحب کے درد مشترک اور قدر مشترک کی بات کی جو وہ پورے عالم اسلام میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں اپنے لئے ذمہ داریوں کے حوالے سے بتایا کہ جب رسول کریم نے حضرت معادؓ کو یمن کا گورنر بنایا تو فرمایا.... تم لوگوں کو بشارتیں اور خوشخبریاں دیا کرنا اور نفرتیں نہ پھیلانا۔ خلق خدا کے لئے آسانیاں پیدا کرنا۔ سمیعہ راحیل قاضی نے کہا کہ میں بھی اسلام کو آسان بنا کے ایک خوشگوار معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کروں گی۔ انہوں نے مریم نواز کی بہت تعریف کی۔ وہ میری چھوٹی بہن کی طرح ہے۔
وینا ملک تحریک انصاف میں
تحریک انصاف کے فروغ اور فراغت کے لئے شاہ محمود قریشی کی طرح عمران خان بھی بہت کوشش کر رہے ہیں۔ عمران نے دبئی میں بھارت میں مقبول پاکستانی اداکارہ وینا ملک اور ان کی اداکاری کے فین شوہر اسد بشیر خٹک سے ملاقات کی۔ دونوں نے نیا پاکستان کا شہری ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ خٹک صاحب نے تحریک انصاف اور ملکہ صاحبہ نے عمران خان کو جائن کر لیا ہے۔ اسد بشیر خٹک نجانے پرویز خٹک کے کیا لگتے ہیں اور وینا ملک عائلہ ملک کی کیا لگتی ہیں؟ وینا ملک اور اسد بشیر خٹک کا نکاخ تبلیغی جماعت کے رہنما مولانا طارق جمیل نے پڑھایا تھا۔ حیرت ہے کہ عمران خان اور ریحام خان کا نکاخ انہوں نے کیوں نہیں پڑھایا۔
تحریک انصاف میں آج کل چودھری سرور بہت سرگرم ہیں اور ان کی اس حرکت پر شاہ محمود قریشی بہت گرم ہیں۔ اکرم چودھری نے چودھری سرور کو گرما گرم عشائیہ دیا ہے۔ سنا ہے شاہ محمود قریشی کو بھی دعوت دی تھی مگر وہ نہ آئے۔ شاہ محمود قریشی نبیل گبول کو تحریک انصاف سندھ کا صدر بنوانے کے چکر میں ہے۔ نبیل گبول نے ایم کیو ایم چھوڑتے ہوئے ڈرتے ڈرتے کہا کہ میں بکری نہیں ہوں کہ میرے ساتھ کوئی زیادتی کرے۔ شاہ محمود قریشی اس لئے نبیل گبول کے حامی ہو گئے ہیں کہ انہوں نے اس موقع پر یہ نہیں کہا کہ میں شیر ہوں۔ اگرچہ قریشی صاحب اپنے آپ کو ببرشیر سمجھتے ہیں۔
نظریہ پاکستان کانفرنس
اس بار بھی نظریہ پاکستان کانفرنس دھوم دھام سے ہوئی۔ حسب روایت تین دن بھرپور تقریبات ہوئیں۔ یہ موقعہ تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے کی طرح بہت اہم ہوتا ہے کہ پاکستان کے طول و عرض اور دور دراز سے سینکڑوں خواتین و حضرات اس شاندار کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں۔ کبھی مرشدومحبوب مجید نظامی کی قیادت میں یہ واقعہ ایک یادگار واقعہ بن جاتا ہے۔ وہ اپنے بعد اپنے سپاہی چھوڑ کر گئے ہیں جو مرتے دم تک ان کی یادوں کی قیادت میں وہ سب کچھ کر گزریں گے جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ اس سال چیئرمین نظریہ پاکستان صدر رفیق تارڑ ہر محفل میں موجود تھے۔
شاہد ر شید نے اپنی ٹیم کے ساتھ دن رات ایک کرکے کانفرنس کو کامیاب بنایا۔ ڈاکٹر رفیق احمد اور فاروق الطاف بھی ساتھ ساتھ تھے۔ نظریہ پاکستان کی ٹیم میں شاہد رشید کے ساتھ ناہید عمران گل، سیف اللہ عثمان احمد ظہیر احمد نعیم احمد عباس علی شہزاد اور جاوید افتخار کے علاوہ بھی دوست شامل ہیں۔
شاہد رشید نے وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے بہت مہربانیاں کیں۔ سٹی گورنمنٹ کے تعاون کے لئے ڈی سی او کی طرف سے ڈاکٹر ندیم الحسن گیلانی نے بہت ساتھ دیا۔ خواتین میں سے آپا مہناز رفیع، ثریا خورشید، ڈاکٹر پروین خان، نائلہ عمر، بیگم صفیہ اسحاق قابل ذکر ہیں۔ کانفرنس کے حوالے سے ایڈیٹر نوائے وقت رمیزہ نظامی کا بھی شکریہ ادا کیا گیا کہ نوائے وقت اور وقت نیوز میں اس کانفرنس کا تذکرہ بہت خوشدلی سے کیا گیا۔ اس طرح کانفرنس کی بات بہت لوگوں تک پہنچ گئی۔
میں اسلام آباد میں ایک ناگزیر مصروفیت کی وجہ سے تیسرے اور آخری دن شرکت کر سکا۔ صدر رفیق تارڑ تقریر کرکے جا چکے تھے۔ ڈاکٹر رفیق احمد آخر وقت تک موجود رہے۔ خواجہ سعد رفیق اور مشاہد حسین نے خاص طور پر اس اجلاس میں شرکت کی۔ دونوں نے نظریہ پاکستان کے فروغ کے لئے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی خدمات کو سراہا اور مجید نظامی کو یاد کیا۔
مینار پاکستان میں تاریکیاں
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کی انچارج ڈاکٹر پروفیسر نوشینہ نے بڑی فکر مندی سے ایک بات کی۔ وہ راوی روڈ کے علاقے میں رہتی ہیں اور مینار پاکستان کے پاس سے کئی بار گزرتی ہیں۔ اب شہباز شریف کی توجہ اور دلچسپی سے مینار پاکستان کا علاقہ بہت خوبصورت اور بارونق ہو گیا ہے۔ مگر روشنیاں صرف سڑکوں پر ہی رنگ دکھاتی ہیں۔ جب کہ مینار پاکستان میں اندھیرا ہوتا ہے۔ پڑوس میں شاہی مسجد کی طرف بھی تاریکیاں ہوتی ہیں۔ وہاں آج کل مولانا عبدالخبیر آزاد مسجد کے ماحول کو دلفریب بنانے میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔ وہ اکثر اوقات جمعہ کے دن کوئی نہ کوئی تقریب مسجد میں رکھ لیتے ہیں۔ اس دن لوگ بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ دینی اور قومی موضوعات پر دانشوروں کی باتوں سے وہ بہت استفادہ کرتے ہیں۔ مولانا عبدالخبیر بڑے جذبے والے صاحب علم آدمی ہیں۔ وہ شاہی مسجد کے مرحوم امام مولانا عبدالقادر آزاد کے صاحبزادے ہیں۔ مولانا آزاد نے شاہی مسجد کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ مولانا عبدالخبیر آزاد اپنے عظیم والد کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ان سے بھی گزارش ہے کہ ڈاکٹر نوشینہ کی اس بات پر غور فرمائیں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بھی ہے۔ کم از کم روشنی کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ مگر بازاروں میں رات گئے تک ایک ایک دکان پر سینکڑوں بلب جگمگا رہے ہوتے ہیں۔ انہیں بھی کچھ خیال کرنے کی تلقین کی جا سکتی ہے۔ یورپ وغیرہ میں سورج غروب ہوتے ہی تمام مارکیٹیں بند ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ تجویز سامنے آئی تھی مگر کاروباری اور دکاندار طبقہ مان کے نہیں دیتا۔
جرات تخاطب
ڈاکٹر بابر اعوان کوئی باقاعدہ شاعر نہیں ہیں مگر شاعری محبت اور درد کی طرح ہر دل میں مچلتی ہے ان کی اس نظم میں ترقی پسندانہ ادب کی تڑپ زندہ ہو گئی ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے ڈاکٹر بابر اعوان بہت جذباتی ہو رہے تھے۔
اونچے اونچے مکانوں کی ڈیوڑھیوں کے تلے
ہر ایک گام پہ بھوکے بھکاریوں کی صدا
ہر ایک گھر میں بھوک اور افلاس کا شور
یہ کارخانوں میں لوہے کا شوروغل جس میں
ہے دفن لاکھوں غریبوں کی روح کا نغمہ
یہ شاہراہوں پہ رنگین ساڑھیوں کی جھلک
یہ مال روڈ پہ کاروں کی ریل پیل
یہ پٹڑیوں پہ غریبوں کے زرد رو بچے
خفا نہ ہونا مری جرا¿ت تخاطب پر
یہ غم بہت ہے مری زندگی مٹانے کو