پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جسے بیک وقت ایک ساتھ اتنے مسائل کا سامنا ہو۔ اندرونی خطرات کے تانے بانے بیرونی خطرات سے جا ملتے ہیں۔ دہشت گردی، انتہا پسندی اور بلوچستان میں صوبے کے حقوق کے نام پر علیحدگی کیلئے جاری سرگرمیاں دشمن ممالک کی پشت پناہی سے جاری ہیں۔ آگ اور خون کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ دشمن ہمارے بچوں کی لاشیں اور خون میں لت پت انکے چہروں کو ہمارے اعصاب شل کرنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ کچھ طاقتوں کو ایٹمی پاکستان ہرگز قبول نہیں ہے۔ لیکن یہ دشمن کا ایجنڈا ہے ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ کیا ہم سب نادانستہ اور اجتماعی طور پر ان کے ایجنڈے کو تقویت تو نہیں پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات سیاستدان بیورو کریسی، فوج یا عدلیہ ہی نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے اس کے ذمہ دار ہیں۔ ملکوں کی ترقی میں عوام کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں آجکل نظام کے فیل ہونے اور نئے نظام کی بحث چل رہی ہے۔ لیکن نظام کوئی بھی ہو جب تک ہماری قوم کمٹمنٹ کے ساتھ ملک کی ترقی کے لئے یک زبان اور ایک مٹھی نہیں بن جاتی ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے ہیں۔ دشمن ہماری سلامتی پر حملے کرکے ہماری نظریاتی و زمینی سرحدوں کو تبدیل کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ مگر ہم کیا کر رہے ہیں۔ من حیث القوم ہم سب اخلاقی پستی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس ملک کی ہر خرابی کا ذمہ دار حکمران و سیاستدان کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ لیکن اس ملک کا ڈاکٹر کیا کر رہا ہے۔ کیا وہ چند روپوں کیلئے لوگوں کی زندگیوں سے نہیں کھیل رہا۔ کیا اس ملک کا سرمایہ دار غریبوں کا حق نہیں کھا رہا۔ کیا اس ملک کا صحافی خود کو ہر احتساب سے بالا نہیں سمجھتا۔ ملک کی بیورو کریسی کرپشن اور لوگوں کو غلام سمجھنے کے علاوہ کیا کر رہی ہے۔ اساتذہ ہماری نئی نسل کی اخلاقی، روحانی تربیت جس انداز سے کر رہے ہیں وہ ہمارے سامنے ہے۔ مردوں کا گوشت کھانے سے لے کر مردہ گدھوں کا گوشت کھلانے تک سینکڑوں لوگوں کو بھتہ نہ دینے پر زندہ جلانے سے لے کر معصوم بچیوں سے زیادتی و قتل تک ہم کون سے ایسا جرم اور گناہ ہے جو نہیں کر رہے ہیں۔ ریکوڈک کے اربوں ڈالر کے معدنی ذخائر ہوں یا بھارت سے آنے والے آبی ذخائر ہم قومی سلامتی کو پس پشت ڈال کر ہر چیز پیسے کے عوض قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔ کامرہ بیس ہو یا جی ایچ کیو یا پھر آرمی پبلک سکول دہشت گردوں کی مدد کیلئے ہر وقت میر جعفر دستیاب ہیں۔ علماء کرام کا کردار سوائے فرقوں میں تقسیم کر کے اپنے مفادات سمیٹنے کے علاوہ کیا ہے۔ عدلیہ ساٹھ سالوں میں غریب کو انصاف نہیں دے سکی مگر آنیوالے ہر ڈکٹیٹر کیلئے وہ ریلیف بھی آئین سے ڈھونڈ لائی جس کا ذکر تک نہ تھا۔ بے صبری، امیر ہونے کی جلدی اور بے حسی نے معاشرے کو اپاہج کر دیا ہے۔ کیا ہم سب ملک دشمن طاقتوں کے منصوبوں کو عملی امداد فراہم نہیں کر رہے ہیں۔ کہاں گئے وہ اچھے لوگ جو معاشرے میں روشنی کی مانند ہوتے تھے جو کردار کی سچائی سے لوگوں کے دلوں کی منور کرتے تھے۔ اگر ہم نے ملک کو موجودہ دلدل سے نکالنا ہے تو من حیث القوم کردار کی عظمت کی طرف لوٹنا ہوگا۔ سیاستدانوں کو مولانا عبدالستار نیازی کی طرح تختہ دار پر بھی حق کی بات کہنی ہوگی۔ آبرو صحافت مجید نظامی کی طرح آمریت میں بھی سچ کے علم کو اٹھائے رکھنا ہوگا۔ حکیم سعید اور عبدالستار ایدھی کی طرح عوام کے دکھوں کو بانٹنا ہوگا۔ شبیر شہید، عزیز بھٹی شہید، شیر خان شہید (نشان حیدر) اور دوسرے شہداء کی طرح سرحدوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔ اعتزاز خان کی طرح جان کی قربانی دے کر بچوں کی زندگیاں بچانا ہوں گی۔ اشفاق احمد کی طرح قوم کی فکر رہنمائی کرنا ہوگی۔ بھگون داس کی طرح انصاف کا بول بالا رکھنا ہوگا۔ چوہدری اسلم شہید کی طرح عوام پر جان نچھاور کرنا ہوگا۔ تب جا کر ہم اپنے خلاف ہونیوالی سازشوں کا مقابلہ کرسکیں گے۔ پھر ہم دنیا کے بڑے ممالک کی پراکسی وار کا حصہ نہیں بنیں گے۔ قوموں کی زندگی میں کڑا وقت آتا ہے۔ لیکن وہ قومیں اس سے سرخرو ہو کر نکلتی ہیں جو پر عزم ہو کر اپنی درست سمت کا تعین کرلیتی ہیں۔ پھر ہی ہم قومی اساس اور منزل کی طرف بڑھیں گے۔ جس کا خواب قائداعظم نے 1947ء کو دیکھا تھا۔ جس میں قانون کی حکمرانی ہوگی، عوام کی خوشحالی ہوگی، ملکی سلامتی ہوگی۔
کہاں گئے اچھے لوگ
Mar 03, 2015