بلوچستان کے عوام نے اپنے نمائندے بلوچستان کی صوبائی اسمبلی اور پاکستان کی قومی اسمبلی کیلئے منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھجوائے ہیں اور مذکورہ دونوں اسمبلیوں نے سینٹ کے ممبران منتخب کیے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے ممبران نے وزیر اعلیٰ، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور اسمبلی کی کمیٹیوں کیلئے اپنے صوبائی ممبران میں سے اپنے لوگوں کو منتخب کیا ہے۔ بلوچستان کے حالات سول اور فوجی اسٹبلشمنٹ بہتر جانتی ہے اور حکومت وقت کو بھی گاہے بگاہے اس بارے میں بریف کیا جاتا ہے لیکن عوام الناس تو بذریعہ میڈیا جانتے ہیں کہ بلوچوں سے زیادتیاں ہو رہی ہیں اور بلوچ محرومیوں کا شکار ہیں۔ کئی بلوچ سردار تو یورپ اور امریکہ چلے گئے ۔ سال دو سال میں چند دن کیلئے آتے ہیں اپنی جاگیروں پر چکر لگا کر واپس چلے جاتے ہیں۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور معدنی وسائل کے لحاظ سے بھی ملک کا سب سے امیر صوبہ ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے اس کو چھوٹا صوبہ کہا جاتا ہے ۔ بلوچستان میں سرداری نظام رائج ہے۔ اپنے اپنے علاقے میں سردار صاحبان سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔انکے علاقے کی زمینیں اور پہاڑ سونا اگل رہے ہیںاور انکے علاقے کے رہائشی انکے ذاتی ملازموں کی طرح ہیں۔ اگرچہ اُنکی زمینیں اور پہاڑ معدنیات کے خزانے کہلاتے ہیں اُنکی ملکیت ہیں لیکن صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے حقوق و فرائض کا خیال رکھنا بھی بلوچ عوام کے ہر باشندے پر عین فرض ہے۔ بلوچستان کے خام میٹریل کی صورت میں سونا، چاندی، تانبہ، لوہا اور دیگر معدنیات پر مبنی جتنے بھی خزانے ہیں جہاں وہ بلوچ سرداروں کی ملکیت ہیں وہاں ان پر بلوچستان کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے بھی حقوق ہیں جن کی پہلے سے حدود متعین ہیں۔ چند بلوچ سردار غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور جانے کس کی اشیر باد سے خام مال کے پورے پورے جہاز غیر ممالک میں یہ بھیجتے ہیں لیکن حکومت ِ پاکستان کو ان معدنیات تک رسائی حاصل نہیں۔ بلوچوں کا ہر حکومت کے ساتھ کوئی اچھا تعلق نہیں رہا یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی وفاقی حکومت کا بلوچوں سے رویہ اس طرح قابلِ قدر نہیں رہا کہ بلوچ سردار حکومت ِ پاکستان کو اپنی حکومت سمجھیں اور پاکستان کے دیگر صوبوں اور اِنکے عوام سے نفرت کا اظہار نہ کریں۔ بلوچ سردار جو خام میٹریل بیرونِ ملک بھیج رہے ہیں اگر حکومت ِ پاکستان خام میٹریل کا بلوچستان میں جتنا ذخیرہ ہے خرید لے پھر بھی حکومت نقصان میں نہ رہے گی۔ کیونکہ غیر ممالک کے باشندوں کو یہ خام میٹریل اونے پونے بھائو فروخت ہو رہا ہے۔ اگر حکومت بلوچ سرداروں کو خوش کرنا چاہے تو بلوچستان میں موجود تمام خام میٹریل کسی معاہدے کے تحت خرید کر حکومت اس پر قابض ہو جائے اور پھر بلوچ بھی یقین دہانی کرائیں کہ چوری چھُپے خام میٹریل کسی غیر ملکی کو فروخت نہیں کرینگے۔ دوسرے بلوچوں کے جو جو گلے شکوے ہیں سُن کر اُنکے حل کیلئے بلوچ سرداروں اور افواجِ پاکستان کے وہاں کے آفیسروں پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جائیں اور انکی شکایات کا اُن کمیٹیوں کی سفارشات کے مطابق ازالہ کیا جائے۔بلوچ سرداروں کے بارے میں جو جو شکایت سول اور فوجی اسٹبلشمنٹ کو ہیں بلوچ سردار بھی اپنے طور پر ان شکایات کو دور کریں تاکہ بلوچ سردار حکومت ِ پاکستان کو اپنی حکومت سمجھ کر قومی دھارے میں آکر پاکستانی قوم کے افراد کی حیثیت سے ملکی معاملات میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔ پرویز مشرف کے زمانے میں حکومت کا کہنا یہ تھا کہ ملک کے بجٹ کا 56فی صد حصہ بلوچستان کو دیا جا رہا ہے باقی پورے ملک پر صرف بجٹ کا 44فیصد خرچ کیا جا رہا ہے لیکن زبان زدِ عام یہ گفتگو چلتی تھی کہ ہر ماہ کے آخر پر وزیر اعلیٰ بلوچستان جام یوسف اسلام آباد آتے ہیں اور صوبے کے ملازمین کی تنخواہ کی ادائیگی کیلئے وزیر اعظم شوک عزیز سے چیک لے کر جاتے ہیں۔ بلوچستان حکومت کا خزانہ خالی تھا۔
بہر حال جب سے ہم نے ملکی حالات کے بارے میں تھوڑا جاننے کی کوشش کی ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایوب خان کے زمانہ میں بھی وفاقی حکومت نے بلوچستان کے حالات کو کبھی بہترین نہیں سمجھا۔ ایوب خان کے زمانے میں ایئر مارشل نور خان کی قیادت میں بلوچستان کو بذریعہ طاقت کنٹرول کیا گیا۔ بھٹو صاحب نے بھی وہاں گورنر راج کا نفاذ کر دیا تھا ۔ اُسکے بعد کے عرصہ میں بھی بلوچ وفاقی حکومت او دیگر صوبائی حکومتوں سے نفرت کرتے رہے ہیں اور وفاقی حکومت کو بھی ہمیشہ بلوچستان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ ایک جانب بلوچ سردار پاکستان کے دیگر صوبوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن دوسری جانب اِن صوبوں میں ہی کئی بلوچ سرداروں نے ذاتی رہائشیں رکھی ہوئی ہیں۔ کراچی اور لاہور کا ذکر اس سلسلے میں خصوصی طور پر کیا جاتا ہے۔ ایک بلوچ سردار جو بلوچستان کے گورنر بھی تھے انکی ذاتی رہائش لاہور میں تھی اور ویک اینڈ پر وہ لاہور آجایا کرتے تھے۔جب سے مسلم لیگ کی حکومت بنی ہے یہی سنائی دے رہا ہے کہ عوام اور سرداروں کو اعتماد میں لیا جائیگا۔ بلوچستان کے حالات کا ادراک رکھتے ہوئے وہاں کے تمام مسائل بلوچوں کی مرضی کیمطابق حل کیے جائینگے لیکن ابھی تک مسائل حل کرنے کی بجائے بلوچوں کی ناراضگی میں اضافے کیلئے اسباب پیدا کیے جا رہے ہیں۔ملک و قوم کو یگانگت کی جو آج ضرورت ہے شاید اس سے پہلے اتنی شدید ضرورت نہ تھی۔
موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان اسمبلی کا ایک نمائندہ وفد اور قومی اسمبلی و سینٹ کے بلوچ ممبران کا ایک نمائندہ وفد مقرر کیا جائے اور یہ دونوں وفد وزیر اعظم کی جانب سے مقرر کردہ سیاسی رہنمائوں /وزیروں کے وفد سے ڈائیلاگ کے ذریعے بلوچستان کے مسائل کا حل تلاش کریں۔ سیاسی حکومت بلوچستان کے مسائل کو سیاسی طور پر نمٹنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شاملِ حال ہو جائیگی‘ بشرطیکہ دونوں طرف خلوص ِ نیت سے حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے،ڈنگ ٹپائو کام اب نہیں چلے گا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی بلوچوں کے ساتھ یہی سلوک رہا۔ بابر اعوان پہلے کوئٹہ گئے بلوچوں سے ملاقاتیں کیں اور واپس آگئے کہ جلد ہی خود زرداری صاحب کوئٹہ آکر تمام مسائل پر بلوچوں کیساتھ گفتگوکر کے مسائل کا حل نکالیں گے۔یہ نہ ہوا۔ پھر کائرہ صاحب کوئٹہ گئے اور وہ بھی ان ہی الفاظ کا اعادہ کر کے واپس آگئے کہ بہت جلد بلوچ رہنمائوں کیساتھ ملاقاتیں کر کے تمام مسائل کا حل تلاش کر لیا جائیگا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا وقت پورا ہو گیا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو‘کے مترادف مسائل پہلے کی نسبت بڑھتے چلے گئے۔
وزیر اعظم سے اِن سطور کے ذریعے گزارش کی جاتی ہے کہ لارے لپے سے کام نہ لیں اور نہ ہی بے احتیاطی سے۔ جن جن صاحبان اور اداروں کے سربراہان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے ان سے مشورہ کر کے ہمت کریں، بولڈ سٹیپ لیں سیاسی لوگوں کی کمیٹیاں بنائیں اور سیاسی طور پر مسائل حل کریں۔ بلوچ عوام آپکے گرویدہ ہو جائینگے بلکہ آپ بلوچوں کی آنکھ کاتارا بن جائینگے۔ بلوچستان کا بچہ بچہ پاکستان زندہ باد پکارے گا۔ پاکستان کیلئے یہ بہت ہی نیک شگون ہو گا۔ پاکستان کے دشمن جو اس وقت بلوچوں کو بہلا پھسلا رہے ہیں اور بلوچستان میں دہشتگردی کے مرتکب ہو رہے ہیں انشاء اللہ اپنی موت آپ مر جائینگے۔ یہی بلوچ پاکستان دشمنوں کے دشمن ہو جائینگے۔وزیر اعظم سے اپیل کی جاتی ہے کہ بلوچستان میں قحط الرجال نہیں ہے اس لیے بلوچ گورنر فوری طور پر مقرر کیا جائے اسکے بعد دوسرے معاملات کی طرف توجہ دیں۔