ادویات کے پسِ پردہ مافیا

Mar 03, 2016

محمود فریدی

ملتانی سوہن حلوہ‘ پشاوری چپل‘ عارفی خربوزہ‘ چکوالی ریوڑی‘ شجاع آبادی آم اور اس طرح دیگر سوغاتیں اپنے منفرد ذائقوں اور خصوصیات کے باعث مشہور ہیں اور لوگ انکی منہ مانگی قیمت ادا کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ اشیاءمقامی سطح پر تیار ہونے کے باوجود بھی شہرت یافتہ برانڈ سے زیادہ منظور عام نہیں ہوتیں۔ اس ضمن میں کچھ اشیاءمثلاً آلو‘ کھیرا‘ ٹماٹر‘ گوبھی چاہیے کہیں کی بھی ہو قبولیت کی سند موسم اور سپلائی ڈیمانڈ کے تحت پاتی ہے۔ گویا ہر شے کی قیمت کا تعین سپلائی ڈیمانڈ اور شے کی انفرادی خصوصیات کے تحت ہوتا ہے۔ جونہی انفرادی خصوصیات ختم ہو جائیں مقابلہ صرف سپلائی ڈیمانڈ کے تحت ہو گا۔

ملک میں کپڑے کے سینکڑوں کارخانے ہیں کورے لٹھے‘ ململ اور سادہ تر کوالٹی کی قیمتیں تقریباً مماثل ہوتی ہیں۔ چینی، سیمنٹ اور کئی صنعتوں کی پیداوری قیمت یکساں ہوتی ہے۔ گھی، آٹا اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی عموماً قابل فہم حد تک ایک سطح پر برقرار رہتی ہیں۔ اس معاشی منظرنامے میں روشن حقیقت یہ ہے کہ قیمت اور گاہک کی جیب کا رشتہ معقول رکھنے کی ذمہ داری حکومتی اداروں پر عائد ہوتی ہے گو کاروباری کمپنیاں قانون اورمعاشی اخلاق کی بھی پابند ہوتی ہیں مگر بنیادی کام حکومت کا ہوتا ہے کہ وہ عوام کی جیب پر پڑنے والے ناروا بوجھ پر نہ صرف نظر رکھے بلکہ ایسی ہر حرکت کا سدباب کرے جس کا مقصد لوٹ مار کرنا ہو۔
اس تناظر میں جب ادویات سے متعلقہ کاروبار پر نظر پڑتی ہے تو دور تک شکار گاہ اور مذبحہ خانے کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ دوا ایک ہے اس کے سو نام رکھے ہیں اور سو کمپنیاں اپنے اپنے مضحکہ خیز ٹریڈ ناموں سے مختلف قیمتوں (بعض اوقات قیمتوں کا یہ فرق محیر العقول حد تک زیادہ ہوتا ہے) پر بیچ رہی ہیں ان سو دواﺅںکے ساتھ ملنے والے لٹریچر کو بہ نظر غائر دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان سب دواو¿ں میں بنیادی دوا (جنرک نام) تو ایک ہی ہے جس کا فارمولہ کیمیائی تفصیل ایک ہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوا ایک ہے تو نام سو کیوں؟ اور اگر نام سو بھی ہو گئے تو قیمتوں میں فرق کیوں؟ ایک دوا منوں ٹنوں میں بنتی ہے، ڈرموں ٹرکوں میں آتی ہے، گولی اورکیپسول کے سفر میں سو ہزار ناموں میں روپوش کر ان گنت جلوے کیسے دکھاتی ہے؟
یہ مار دھاڑ کیسے ہوتی ہے؟ ایک پورا مافیا کاروباری قبیلہ اسی کی پشت پر موجود ہے، اس میں ملٹی نیشنل کمپنیاں اُنکے مارکیٹینگ کے ماہرین اور دیگر لوگ شامل ہوتے ہیں۔ کمپنیوں کے نمائندے جنہیں عرف عام میں میڈیکل ریپ کہا جاتا ہے ڈاکٹر نہیں ہوتے بس دوا کا نام اور خصوصیات کا سبق رٹ کر یہ اچھے لباس وضع قطع میں ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں اپنی کمپنی کی جانب سے فراہم کردہ ورنٹینگ کارڈ کے ذریعہ ملاقات کرتے ہیں اور اپنی دوا کے بارے میں رٹا رٹایا سبق قے کر کے، کچھ تحفے تحائف اور لالچ کے مختلف پیکیج پیش کرتے ہیں، اگر ڈاکٹر سے ڈیل ہو گئی تو دوا نے ڈاکٹر کے قلم کی سیاہی کا روپ دھار لیا اگر ڈاکٹر نے کسی اور کمپنی کا نشہ چڑھا رکھا ہے یا اپنے زور مطالعے سے دواو¿ں کی شناخت کا چلہ کاٹ رکھا ہے تو چند کی رنگ‘ وال کلاک‘ ٹیبل کی ڈیکوریشن آئیٹمز اور تعارتی لٹریچر کے ساتھ دوا کے چند نمونے اور مجلس برخواست۔ وقفہ برائے کمپنی کی مشہوری! بڑی کمپنیاں بڑی سطح پرکیا کچھ کرتی ہیں۔ دوا رجسٹر کروانے‘ مارکیٹ کرنے اور سرکاری ہسپتالوں میں رواج دینے کے عمل کو بڑی گیم گردانا جاتا ہے یہ عمل محکمہ صحت اور کمپنی کی بڑی توپوں (مالکان) کے درمیان بالاہی بالا طے ہو جاتا ہے۔ دوا کی اصل قیمت میں مندرجہ بالا چھوٹی بڑی گیم اور ورزش کے دوران ضائع ہونیوالی توانائی کی قیمت شامل ہو کر پیدواری قیمت بنتی ہے جس میں کمپنی اپنا منافع اور ریٹیلر کا معاوضہ شامل کر کے دوائی کی ڈبیا پر خوردہ فروش قیمت چھاپتی ہے۔ اب برائے کرم آپ ذرا سی تکلیف ٹھائیں فارما گائیڈ نامی کتاب یا اسی نوع کی کوئی اور کتاب اٹھائیں چند صفحات گھنگالنے کے بعد آپ پر اس سارے ڈرامے کی چکا چوند افشا ہو جائےگی۔ کسی دوا کا نام پڑھیں اسکے نیچے اسکے خواص، ترکیب، استعمال، اثرات وغیرہ کی تفصیلات دی ہونگی، ساتھ ہی اس دوا کو بیچنے والی سو پچاس کمپنیوں اور انکی طرف سے دوا کے مخلص ناموں اور قیمتوں کی فہرست۔ اب دیکھتے جائیے اور سر دھنتے جائے۔ ایک دوا کے کیا کیا بہروپ اور تحلص، الگ الگ پیچیدہ دعوے اور متفرق قیمتیں! آپ کہہ اٹھیں گے یہ کیا غضب ہے، کیا شعبدہ بازی ہے! یہ کوئی عارف والا کے خربوزے‘ ملتانی لنگی یا پشاوری چپل تو نہیں! بھائی یہ قوم کی صحت اور غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی کا سوال ہے! ان کمپنیوں کی ادویات کے اشتہاروں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ موبائل فون یا فلمی دنیا جیسی کوئی مرنجاں مرنج صنعت اورشعبہ ہے۔اب یہ کمپنیاں آپس میں یک لخت ہو کر جب چاہیں قیمتوں میں اضافہ کر دیں مسابقتی کمیشن کیا کریگا جب میاں بیوی (حکومت اور کمپنیاں) راضی ہوں۔ ظاہر ہے دواو¿ں جیسی حساس آئٹم کی قیمتوں کا ردو بدل حکومت کی مرضی کے بغیر تو نہیں ہو سکتا۔ وزرات کی بنائی شاید ان کمپنیوں کی طرف سے فراہم کردہ روشنی میں ہی دیکھنے کے قابل بنتی ہے، ادھر لوڈشیڈنگ کے دوران روشنی آئی تو صحت کے رکھوالے رستہ دیکھنے کے قابل ہوئے۔ پھر چل سو چل جتنا گڑ اتنا میٹھا۔ میٹھا کمپنی کا اور کڑواہٹ دوائی کی گولی میں۔
اس صورت حال کا ازالہ مرحوم شیخ رشید (بھٹو دور کے وزیر صحت) نے جنرک نیم کا نفاذ کر کے کیا تھا چند ہی روز میں کمپنیوں کے کس بل نکل گئے تھے اور دعاو¿ں کی قیمتیں معمول پر آ گئی تھیں۔ یہ سکیم کیوں فیل ہوئی یہ الگ داستان ہے۔ انڈیا میں یہ سسٹم کامیابی سے چل رہا ہے۔ مختصر یہ کہ جہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں پہنچ جاتی ہیں وہاں عوامی مفاد کے پاو¿ں میں زنجیر پڑ جاتی ہے کیونکہ میر جعفر صادق اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے انڈوں سے بچے نکلنے بند نہیں ہو سکتے! ضرورت اس امر کی ہے کہ دواو¿ں کے کاروبار کو جنرک نیم کے تحت چلایا جائے۔ کمپنیاں اپنی مہارت کے جوہر صرف کوالٹی اور قیمت کے میدان میں دکھائیں نہ کہ کرپشن اور گھات بازی کے میدان میں۔ دواو¿ں کی قیمتوں میں زیر غور اضافے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ”جنرک سسٹم“ حکومت کی ساکھ اور نیک نامی میں اضافے کا موجب ہو گا۔

مزیدخبریں