مَیں نے خواب میں دیکھا کہ بابا ٹلّ مجھے اپنی بُلٹ پروف گاڑی میں بٹھا کر اسلام آباد میں مولانا فضل اُلرحمن کے بنگلے پر لے گئے۔ مَیں خوفزدہ تھا۔ مَیں نے بابا ٹلّ سے کہا کہ مَیں مولانا فضل اُلرحمن کے سیاسی نظریات سے متفق نہیں ہُوں۔ یہ بات آپ بھی جانتے ہیں۔ اگر میرے ساتھ کچھ ہو گیا تو؟۔
بابا ٹلّ۔ ” اثر چوہان صاحب! مولانا فضل اُلرحمن پختون ہیں اور پختونوں میں روایت ہے کہ اگر دشمن بھی اُن کے گھر آجائے تو اُس کی بھی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ آپ فکر نہ کریں مَیں نے مولانا صاحب سے آپ کو اپنے ہمراہ لانے کی اجازت لے لی تھی“۔
کچھ ہی دیر بعد بنگلے کا گیٹ کھول دِیا گیا اور ایک بہت ہی با اخلاق نوجوان نے ہمیں مولانا صاحب کے ڈرائنگ روم میں لے جا کر بٹھا دِیا۔ مجھے یاد آگیا کہ یکم مارچ 2015ءکو مختلف نیوز چینلوں پر مَیں نے مولانا فضل اُلرحمن کا یہ وسیع و عریض اور خوبصورت ڈرائنگ روم دیکھا تھا اور یہاں سابق صدر جناب آصف علی زرداری اور اُن کے کچھ ساتھیوں کے لئے انواع و اقسام کی نعمتوں سے سجایا ہُوا دستر خوان بھی ۔ بار بار کیمرہ مین دکھا رہے تھے اور رپورٹر حضرات گنوا رہے تھے کہ ”یہ ہے فرائی مچھلی، نمکین سجّی، کابلی پلاﺅ، بُھنے ہوئے بٹیر، چکن منچورین، ہاٹ اینڈ سار سُوپ، سفید اُبلے چاول، دال مونگ، دال ماش اور یہ ہے بُھنا ہُوا سالم بکرا“۔ مجھے یاد آیا کہ سابق صدر زرداری کو اپنے گھر مدعو کر کے مولانا فضل اُلرحمن نے اپنی جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری کو بلا مقابلہ ڈپٹی چیئرمین منتخب کروالِیا تھا۔ تھوڑی دیر میں مولانا صاحب تشریف لے آئے۔ بابا ٹلّ اُٹھ کھڑے ہُوئے اور مَیں بھی۔ مولانا صاحب بابا ٹلّ سے گلے مِلے اور مجھ سے مصافحہ کِیا اور کہا کہ ”تشریف رکھیں“۔ ہم دونوں بیٹھ گئے ۔ گفتگو کا سِلسلہ مَیں نے شروع کِیا اور کہا ”مولانا فضل اُلرحمن صاحب! مَیں آپ کے دولت کدہ پر حاضر ہو کر بہت خوشی محسوس کر رہاہُوں؟۔
مولانا صاحب (مسکراتے ہُوئے)۔ ” بھائی میاں! یہ تو غریب خانہ ہے۔ دولت کدہ تو میاں نوازشریف کا ہے یا آصف زرداری صاحب کا!“۔
بابا ٹلّ ”مولانا فضل اُلرحمن صاحب! میری خواہش تھی کہ مَیں کسی دِن اثر چوہان صاحب کو آپ کے دولت کدہ معافی چاہتا ہوں کہ آپ کے غریب خانہ پر حاضر کردوں۔ کل یکم مارچ کی شام مختلف نیوز چینلوں پر مَیں نے آپ کو ملتان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے دیکھا‘ مسکراتے ہُوئے‘ کِھلکھلا کر ہنستے ہُوئے اور کبھی حکمرانوں کی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہُوئے بھی“۔
مولانا صاحب ”بابا ٹلّ جی! آپ 90 ملکوں میں اپنا کاروبار بے شک کرتے رہیں لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ہماری جے یو آئی میں آکر دین کی خدمت کریں!“۔
بابا ٹلّ۔ ”فی الحال آپ ”قانونِ تحفظ خواتین“ پر بات کریں۔ آپ نے تو پنجاب اسمبلی کے ارکان کو ”زن مُریدان“ کا خطاب دے دِیا ہے؟“۔
مَیں۔ دخل اندازی کی معافی چاہتا ہُوں مولانا فضل اُلرحمن صاحب! پیپلز پارٹی کے سینیٹر بیرسٹر اعتزاز احسن نے 6 اپریل 2013ءکو لاہور میں میڈیا سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ”مَیں جورُو کا غلام یعنی زن مرید ہُوں اور میاں نوازشریف اور مولانا فضل اُلرحمن بھی جورُو کے غلام ہیں۔ مَیں نے اعتزاز صاحب کے اِس بیان پر 9 اپریل کو ”ہر کوئی ہے غلام جورُو کا“ کے عنوان سے کالم بھی لِکھا تھا؟۔
مولانا صاحب۔ ” پہلے آپ میاں نوازشریف سے پوچھیں کہ اُنہوں نے اپنی وضاحت کیوں نہیں کی کہ ”مَیں جورُو کا غلام نہیں ہوں“۔ اور مَیں اپنے بارے میں اِس طرح کے فضول بیانات اور واہیات کالم نہیں پڑھتا البتہ کبھی کبھی میرا کوئی مُرید مجھے یہ پڑھ کر سنا دیتا ہے لیکن میں اُس وقت اپنے کان بند کر لیتا ہُوں“۔
بابا ٹلّ۔ ” مولانا صاحب! آپ نے خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہبا شریف کو ”خادمِ بیگمات“ کہہ دِیا ہے اور ”قانونِ تحفظ خواتین“ پر آپ وزیراعظم نوازشریف کے بھی لتّے لیتے رہے ہیں حالانکہ آپ مسلم لیگ ن کے اتحادی ہیں۔ آپ وفاقی وزیر کی مراعات کے ساتھ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں، آپ کی جے یو آئی کے دو وفاقی وزیر اور مولانا محمد خان شیرانی بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہیں۔ کیا یہ آپ کا نظریہ¿ ضرورت نہیں؟“۔
مولانا صاحب۔ ”نظریہ¿ ضرورت“ وزیراعظم نواز شریف کا ہے۔ سابق صدر آصف زرداری نے بھی ”نظریہ¿ ضرورت“ کے تحت ہی مجھے کشمیر کمیٹی کا چیئرمین اور مولانا محمد خان شیرانی کو چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل بنایا تھا“۔
مَیں لیکن مولانا صاحب ”نظریہ¿ ضرورت“ تو دو طرفہ ہوتا ہے۔ "Give and Take" یعنی ”کچھ دو اور کچھ لو“ کی بنیاد پر؟۔
مولانا صاحب۔ ”مَیں نے آپ ہی کے کالم میں سرگودھا کے ایک مرحوم شاعر سیّد ضامن علی حیدر کا ایک شعر پڑھا تھا کہ....
”بے سروپا یہ حکایات پہ مت غور کرو
لوگ سو طرح سے بدنام کِیا کرتے ہیں“
مَیں۔ لیکن مولانا صاحب ! تھوڑی دیر پہلے میرے کالم کے بارے میں کہا تھا کہ مَیں واہیات قِسم کے کالم نہیں پڑھتا؟۔
مولانا صاحب!۔ ”اگلا سوال؟“۔
مَیں پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ اگر ”قانونِ تحفظ خواتین“ غلط ہے تو مولانا فضل اُلرحمن‘ مسلم لیگ ن سے جے یو آئی کا اتحاد ختم کیوں نہیں کر دیتے؟۔
مولانا صاحب۔ ”کیا ہمیں اب مسلم لیگ ن سے اتحاد بنائے رکھنے یا ختم کرنے کے لئے بھی شاہ محمود قریشی کے مشورے پر چلنا پڑے گا؟“۔
بابا ٹلّ۔ ” مولانا صاحب!۔ آپ نے کہا ہے کہ ”عام انتخابات میں خواتین و حضرات ووٹرز ہمیں اتنے ووٹ نہیں دیتے کہ ہم حکومت بنا سکیں لیکن جب ہم حکومت گرانے پر آجائیں تو ووٹرز بھی اُس حکومت کو گرنے سے نہیں بچا سکتے؟۔ کسی شاعر نے کہا تھا کہ
”نَشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزہ تو جب ہے کہ گِرتوں کو تھام لے ساقی“
مولانا صاحب۔ ”لاحول وَلا قُوة“ بھائی میاں! ہم دِین کے حوالے سے سیاست کرتے ہیں۔ کسی سیاسی لیڈر کو حکومت بنانے میں اُس کی مدد کرنا اور اُس کی حکومت کو گرانا ہمارا دِینی اور جمہوری استحقاق ہے اور ہاں! ہم کسی حکومت کو گرانے کا فیصلہ اُس وقت کرتے ہیں جب اُس کے اور اُس کے ووٹروں میں فاصلے اِتنے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے کی آوازیں بھی سُنائی نہیں دیتیں....
”چھیتی بوڑھیں وے طبیبا‘ نئیں تاں مَیں مر گّیِا“
کہنے یا گانے کی مہلت نہیں مِلتی“۔
مَیں۔ ”مولانا صاحب! آپ کو تو پنجاب کے صوفی شاعر بابا بُلّھے شاہ کا کلام بھی یاد ہے؟۔
مولانا صاحب۔ ”ہماری جے یو آئی کو پنجاب میں بھی جلسے کرنا ہوتے ہیں لیکن مَیں پنجاب کے صوفی شاعروں کا کلام تخت اللفظ پڑھتا ہُوں۔ ”تحفظِ خواتین کے بل“ کو قانون کی شکل دینے والے خادمِ اعلیٰ پنجاب کی طرح گانے کا شوق نہیں ہے مجھے“۔
مَیں۔ مولانا صاحب! اگر وزیراعظم نواز شریف اور خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف آپ کے ”تحفظات“ دُور کر دیں تو کیا پھر بھی آپ اُن کی حکومت گرانے کی کوشش کریں گے؟۔
مولانا صاحب ۔ "No Comments"۔
مولانا فضل اُلرحمن نے بابا ٹلّ کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ بابا ٹلّ نے تین بار اپنا ٹلّ بجایا تو میری آنکھ کُھل گئی۔