روزانہ نئی سے نئی اطلاعات پریشانی کو بڑھانے کا سبب بنتی ہیں مسائل ایسے ہیں کہ ان کا حل نظر نہیں آتا، حل کرنے کی تدبیر کرتے ہیں تو تدبیر کی گرہ میں اور نئے مسائل دکھائی دیتے ہیں۔قافلہ مسلسل چل رہا ہے، رہنما اور اس کے تدبیر کنندگان پوری دلچسپی سے اپنی ذات اور مفاد کے حصول کی منزل پر نظریں جمائے شب و روز بیدار ہیں۔ قافلے پر درندے ٹوٹ پڑتے ہیں قافلے پر آسیب سایہ کرتے ہیں اور کبھی کبھی حشرات الارض کی خطرناک اقسام معصوم نیت مسافروں کو ڈس لیتی ہیں ، رہنما مطمئن ہے۔ قافلے کے منتظمین اطاعت امیر اور حفاظت مفاد میں پوری طرح سے منہمک ہیں۔ بیماریاں، مصائب ، آندھیاں ، طوفان ،زلزلے ، سیلاب اپنے وقت اور قوت کے ساتھ مسافران حیات پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ امیر قافلہ کے کان پر جوں نہیں رینگتی اور وہ ان تمام تباہ کاریوں کو نظام قدرت کا جبر قرار دیکر رواں دواں ہے۔ اس کی بلند بین نظروں میں اس کی ذات اور اپنی نسلوں کا روشن مستقبل ہی موجود رہتا ہے۔اہل قافلہ کارکنان امیر کو ضروری حق خدمت ادا کرنے پر مجبور ہیں۔غریبوں کی ہڈیوں کا رس نچوڑنے کیلئے مالیاتی نظام کے جال میں عوام الناس کو گھیرنے کا بہت ہی پیچیدہ سلسلہ رکھا گیا ہے۔
اعداد و شمار کا ہیر پھیر بنی اسرائیل کے جادوگروں سے خراج تحسین وصول کرنا ہے۔ اور دور جدید کا یہودی حمایت یافتہ نظام معیشت ہمیشہ ہی ماھران اقتصادیات کو اپنی مٹھی میں رکھتا ہے اور پھر قرضہ جاتی ہنر مندی میں کتنے ہی درد مندان سیاست اور اہلکاران ریاست کی مٹھی گرم ہوتی ہے۔ مٹھی کا بڑا کمال ہے کہ اس کے خفیہ اور نہایت حساس سوراخوں سے روپیہ کبھی لندن، کبھی کینڈا، کبھی متحدہ عرب امارات اور کبھی بھارت کے خفیہ مالیاتی اداروں میں پہنچ جاتا ہے۔ اور یہ مالیاتی ہنر مند خالی ہاتھ دکھا کر قوم کو بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ شفاف ہیں لوگ پوچھتے ہیں کہ ذرا نیت کی شفافیت کا حال بتایئے تو ووٹ کے لٹیرے جواب دیتے ہیں کہ ایک مرتبہ ووٹ دے کر آپ پابند ہو گئے ہیں ہماری نیت پر مستقل اعتبار رکھیں، کیونکہ ہم اپنی نیت ، اپنے ارادوں اپنے مقاصد کے حصول میں پختہ نیت کا پاس رکھتے ہیں۔پاکستانی عوام کے بنیادی حقوق ہیں، روٹی کپڑا ، مکان، تعلیم ، صحت جان و مال کا تحفظ، عزت کی پاسداری، آزادی عمل بہت سے سیانے ڈاکوﺅں کو منتر سکھاتے ہیں کہ بنیادی حقوق کے ترجمان جتنے بھی الفاظ ہیں ان کو خوب یاد کر لو اور سلیقے سے یاد کر لو پھر باآواز بلند ترنم سے اور کبھی شریفانہ لہجے میں اور کبھی مسیحانہ لہجے میں اور کبھی آمرانہ لہجے میں عوام کے سامنے بوقت واردات دھراﺅ بس عوام پر غنودگی طاری ہو جائے گی تو پھر تمہارا اختیار ہے کہ پگڑی اتارو یا پاﺅں سے جوتی کھِسکا لو۔عوام اگر ہسپتال کے فرشوں پر ایڑیاں رگڑ کر مر جائیں تو تم فوراً نئے ہسپتالوں کی تعمیر کا اعلان کر دو اور زیادہ عوامی غصے کا سامنا ہو تو بے مایہ اور بے اختیار، انگلی پر رقص کار ہسپتال کی انتظامیہ کو برطرف کر دو۔ ہسپتال میں دوا کی عدم موجودگی کا نوٹس لیتے ہوئے اعلان کر دو۔ آدھے صفحے پر اخبای اشتہار دیدو کہ ہم عوام کی صحت کیلئے نئے اقدامات کر رہے ہیں۔ ہم عوام کی بہتری میں ہر وقت اپنے آپ کو مصروف رکھتے ہوئے ہیں۔خدا کا عذاب آتا ہے تو کون روکنے کی سبیل کر سکتا ہے۔ کچھ مرتے ہیں کچھ اپاہج ہو جاتے ہیں۔ یتیموں کی فہرست بڑھ جاتی ہے، بیواﺅں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، ڈاکوواردات کر کے چلے جاتے ہیں۔ فرض شناس جاںکی بازی ہارتے رہتے ہیں۔
تعزیتی بیانات ہیں، ان کی حوصلہ افزائی بعد از مرگ ہے، جو زندہ ہیں وہ تو زندگی کی خاطر ہر وقت مردنی کی کیفیت سے گزرتے ہیں۔ تازہ کالموں میں، تازہ خبروں میں ایک پولیس اہلکار دین محمد کی حکایت خونچکاں اور داستانِ بے کسی شائع ہوئی ہے کہ وردی اور بوٹوں میں کسا روبوٹ نما انسان پولیس کا سپاہی شب و روز سڑکوں کو کوٹتا پھرتا ہے۔ امیر زادوں کے گھروں کے باہر بندوق لٹکائے سینہ تان کر چوکیداری کرتا ہے، اس کے بچے کئی کئی روز تک اپنے باپ کی شکل دیکھنے سے محروم ہیں اس کی بیوی بغیر خاوند کے زندگی بسر کرتی ہے۔ اپنے اعلیٰ افسروں کو دیکھ لے یہ سپاہی تو سانس روک کر زمین پر پاﺅں پٹختا ہے۔ اور ہاتھ ماتھے پر لاکر بت بن جاتا ہے۔ یہ متحرک ہو تو غلام اور جامد ہو تو بد تر غلام سات ماہ سے تنخواہ بند ہے، اولاد دردر کے دھکے کھاتی ہے، زندہ باپ کی یتیم اولاد کہلاتی ہے۔ لوگ اگلے زمانے کو یاد کرتے ہیں کہ بادشاہ اپنی بات کو اپنی ناک کو اونچا رکھتے تھے تو کبھی ہاتھی کے پاﺅں تلے کچلوا دیا کرتے تھے۔ دیوار میں چنواتے تھے، بھوکے شیر کے پنجرے میں پھینک دیتے۔اور اب تاریخ اپنے آپ کو دھرا رہی ہے، مالیات کا بدمست ہاتھ غریب، نادار قوم کی ہڈی کا سر مہ بناتا ہےاور اہل زر اہل زور، قوم خور عوام کو خواہشات کی عمارت کی بنیاد میں عوام کی ہڈیوں کا گودا ڈالتے ہیں کہ یہ بھی رعونت کی علامت ہے۔ جلال آ جائے تو نئے طرز کے کولہو میں پلوا دیتے ہیں، ان زور آوروں کا اپنا منشور ہے، اپنا دستور ہے بالکل بے نور فرعونیت کا غرور ہے۔ قاردنیت کا نشہ ہے اور یزیدیت کی حرص ہے۔ یہ جبر کا خمارا سی سہ آتشہ سے معمور ہے زمانہ بدل رہا ہے، عوام تو حشرات الارض ہیں۔ کیڑے ہیں، مکوڑے ہیں مکھی ہیں اور مچھر ہیں مت بھولئے، بنانے والا خالق وحدہ لا شریک اپنے نظام عذاب و ذلت میں مچھر کو بہت اہمیت دیتا ہے، اور نمرود کی ذلت کے سامان کیلئے مچھر کو نمرودی نظام پر مسلط کر دیتا ہے،
قافلہ مسلسل چل رہا ہے، انتقامی عذاب کا فطرتی مچھر ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔
کمزور مخلوق کا مالک بھی وہی ہے
جسے عزیز ذوانتقام کہتے ہیں۔