انہیں صوبائی وزیر منصوبہ بندی و ترقی مقرر کیاگیا 1990کے عام انتخابات میں مشال خان نے الیکشن میں انورکمال مروت کو شکست دی تاہم 1993 میں وہ اپنے سیاسی حریف مشال خان سے اتحادکر کے ایک بارپھرمسلم لیگ(ن)کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور کچھ ماہ کےلئے وزیراعلیٰ پیر صابر شاہ کی حکومت میں وزیر منصوبہ بندی و ترقیات رہے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں پیر صابر شاہ حکومت کے خاتمے کے بعد 1994 میں وہ سرحد اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بنے 1997میں مسلم لیگ(ن)کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے 2002کے عام انتخابات میں وہ ایک بار پھر مسلم لیگ(ن)کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے اور سرحد اسمبلی میں مسلم لیگ(ن)کے پارلیمانی لیڈر بنے ڈکٹیٹرپرویز مشرف کی آمریت کے خلاف پانچ سال اسمبلی کے اندر اور باہر للکارتے رہے اصولوں پر سودے بازی نہیںکی اور یہ وہ مشکل ترین وقت تھا کہ جب محمد نواز شریف کے قریبی ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ کر ڈکٹیٹرپرویزمشرف کی گود میں بیٹھ گئے لیکن مروت قبیلے کے سپوت انورکمال خان مروت نے ہر قسم کے دباﺅ ،لالچ و مراعات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اپنے قائد محمدنواز شریف کا ساتھ دیا اور صوبے میں مسلم لیگ(ن)کو زندہ رکھا اور موت کی آغوش تک مسلم لیگ(ن)کے ساتھ وفاداری نبھائی۔2008ءکے الیکشن میں وہ اپنے دیرینہ رفیق کار سابقہ ایم این اے حاجی محمد کبیر خان کے بھائی منورخان مروت سے صرف چند سو ووٹوں سے ہار گئے ۔
جب 2006میں بھٹنی قبائل نے مروت قبیلے کی دوخواتین کو اغواءکر کے پشتون غیرت کوللکارا تھا تو انورکمال خان مروت خود اپنے قومی لشکر کی کمانڈ کر رہے تھے اس وقت کے گورنر سرحد عارف بنگش کے دباﺅ اور آپریشن کرنے کے الٹی میٹم کو مسترد کر دیا اور اغواءکاروں کے خلاف قومی لشکر کشی کی جب وہ مستی خیل سے آگے پہاڑوں پر مورچہ زن ہوئے تو مقامی ناظم نے انہیں کہا کہ خان آگے جاﺅگے تو موت آپ کی منتظر ہو گی انہوں نے بڑ ی دلیری سے جواب دیا کہ میں نے سات دن سے کپڑے نہیں بدلے پیچھے ہٹ کر کس منہ سے جاﺅں زندگی تو آنی جانی شے ہے وہ دو ماہ تک پہاڑی میں مورچہ زن رہے فروری 2011 میں انورکمال خان مروت کو مسلم لیگ(ن)کو قبائلی علاقوں میں فعال اور منظم جماعت بنانے کےلئے کوارڈی نیٹر مقرر کیاگیا فاٹا کے فرسودہ نظام ایف سی آر کے خاتمے اور اصلاحات کےلئے بھرپور کردار ادا کیا اور 64سال بعد قبائلی عوام کو سیاسی آزادی ملنے میں مرحوم کا اہم تھا فاٹا میں پیسوں کی چمک کی سیاست کاخاتمہ ان کا خواب تھا وہ فاٹا کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق دینے کے حق میں تھے لیکن اچانک موت نے پورے صوبے کی طرح قبائلی عوام کو بھی غمزدہ کردیا اور وہ ایک اچھے ،باکردار،مخلص اور اصول پسند لیڈرسے محروم ہو گئے مرحوم کا خلاءکبھی پر نہیںہوگا ایسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں مسلم لیگ(ن)فاٹا نے انورکمال خان مروت کی وفات پر تین روزہ سوگ منایا اور ان کی مغفرت کےلئے ہر قبائلی ایجنسی میں ختم قرآن اور اجتماعی دعا کی گئی صداقت ،شرافت،ملنساری ،قناعت،طبیعت میں سادگی آپ کی زندگی کے قیمتی اثاثے تھے کیونکہ مرحوم کاخاندان ضلع لکی مروت کے بڑے خوانین میں سے تھا لیکن گھر کے دروازے ہر حاجت مند،مظلوم اور پارٹی ورکروں کےلئے کھلے تھے جو بات کرتے اسے پورا کرتھے راقم کا مرحوم کے ساتھ تعلق گزشتہ سولہ سالوں سے تھا ان میں جواوصاف تھے وہ بہت کم لیڈروں میں پائے جاتے ہیں وعدے کے پکے تھے صحیح بات ہرکسی کے منہ پر کہتے تھے اسی وجہ سے ہر آدمی ان کا گرویدہ بن گیا ۔مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے اور ظالم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاتے حال ہی میں انور کمال خان مروت کوپاکستان مسلم لیگ(ن)کا صوبائی سینئر نائب صدربنادیا گیا اس سے پہلے مرحوم مسلم لیگ(ن)کے جنرل سیکرٹری بھی رہ چکے تھے ۔حالیہ سالوں میں انہوں نے شدت پسندوں کی کاروائی روکنے کےلئے اپنی قوم کو متحد کیا ان کی موجودگی میں نہ صرف مروت قوم بلکہ ضلع لکی مروت کی سرزمین پر بسنے والے دیگر اقوام کے افراد کو ایک طرح تحفظ کا احساس دلاتی تھی یہی وجہ ہے کہ لوگ صحیح معنوں میں انہیںقائد تسلیم کرتے تھے اور ان پر فخر کرتے تھے تحریک نجات کے دوران 1994 میں جب انورکمال خان مروت گرفتار ہوئے اورڈی آئی خان جیل میں پابند سلاسل کیاگیا تو انہیں پہلی مرتبہ جیل میں دل کا دورہ پڑا
گیارہ فروری 2012کو ہفتے کے روز پی سی ہوٹل پشاورمیں ایک سیمینار میں شریک تھے کہ دل کا دورہ پڑا انہیں قریبی ہسپتال لیڈی ریڈنگ منتقل کیاگیا جہاں ان کی حالت خطرے سے باہر تھی اور 13فروری پیر کی صبح ڈاکٹروں نے انجیوگرافی کی اسی دوران پھر دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوگیا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے ۔مرحوم نے پسماندگان میں تین بیٹے ناصر کمال مروت ایڈوکیٹ،منصورکمال مروت اور تیمورکمال مروت چھوڑے ہیں ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کواپنے جوار رحمت میںجگہ عطاءفرمائے ۔
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
وہ حقیقت میں ہم سے جدا ہوتے نہیں
(ختم شد)
انورکمال خان مروت ایک عہد ساز شخصیت (2)
Mar 03, 2017