اسلام آباد(صباح نیوز+ اے پی پی) قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومت کی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن رہنمائوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر شدید احتجاج کیا ہے۔ جمعہ کو سپیکر سردار ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو اپوزیشن و حکومتی اتحادی جماعتوں کے ارکان اسمبلی نے حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے خلاف احتجاج کیا۔ پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے کہا کہ حکومت کی ٹیکس جنریشن پالیسی ناکام ہو چکی، ایف بی آر کے اہداف امرا کی بجائے غربا سے پورے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، حکومت ڈیزل اور پیٹرول پر سیلز ٹیکس کم کرے توعوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔ حکومتی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف)کی خاتون رکن آسیہ ناصر نے کہا کہ تین چار ماہ سے مسلسل پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے، حکومت اپنے اقدامات پر نظرثانی کرے اور قیمتوں میں اضافہ واپس لے۔ تحریک انصاف کے عامر ڈوگر نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بلا جواز ہے اور اسے واپس لیا جائے، جمشید دستی کا کہنا تھا کہ حکومت کو عوام کی مشکلات کا کوئی احساس نہیں، وزیر اعظم پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کا اعلان کریں۔ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ مٹی کے تیل کی قیمت میں اضافے سے لوگ جنگل کاٹیں گے۔ ارکان اسمبلی کے احتجاج پر وزیر مملکت خزانہ رانا افضل نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم بر سر اقتدار آئے پٹرول کی قیمت 113 روپے فی لیٹر تھی، عالمی سطح پر قیمت کم ہوتی گئی تو ہم نے عوام کو ریلیف دیا، اس وقت مہنگائی کی شرح کافی حد تک کم ہے، پٹرول کی قیمت کم رکھنے کے لیے حکومت کو سبسڈی دینا پڑے گی لیکن پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دینا حکومت کی پالیسی نہیں۔ اے پی پی کے مطابق ارکان اسمبلی نے مطالبہ کیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ فی الفور واپس لیا جائے اور حکومت ٹیکسوں کا نظام بہتر بنا کر بجٹ خسارہ پورا کرے۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عامر ڈوگر نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ظلم اور زیادتی ہے اس سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ پی ٹی آئی کی منحرف رکن عائشہ گلالئی نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ پٹرول کی قیمتوں میں رواں سال کے دوران تیسری دفعہ اضافہ کیا گیا، حکومت کو ایسی پالیسیوں سے گریز کرنا چاہئے۔ پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ بجٹ کے آنے سے پہلے ایس آر او جاری کیا گیا جس میں پٹرولیم مصنوعات پر لیویز میں اضافہ کیا گیا حالانکہ وعدہ کیا گیا تھا کہ یہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا جائے گا۔ خطے کے ممالک کی نسبت پاکستان میں ڈیزل کی قیمتیں زیادہ ہیں اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ دریں اثناء سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ملکی تاریخ میں اب تک معاف کرائے گئے قرضوں کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے رکن رانا محمد حیات کی طرف سے پیش توجہ مبذول نوٹس کو قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے سپرد کردیا اور ہدایت کی کہ 15 دنوں میں اس کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے جبکہ توجہ مبذول نوٹس کے محرک رانا محمد حیات کا کہنا تھا کہ قوم کی لوٹی اربوں روپے پر مبنی دولت ملک واپس لائی جائے‘ اگر موجودہ اسمبلی نے اس حوالے سے موثر قانون منظور نہ کیا تو پوری قوم سے اپیل کرتا ہوں وہ کسی کو الیکشن 2018ء میں ووٹ نہ دے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں رانا محمد حیات کے حکومت کی جانب سے قرضوں کی وصولیابی کے لئے ناکافی قوانین بشمول قرضوں کی معافی سے متعلق توجہ مبذول نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ حکومت کوئی قرضہ معاف نہیں کرتی۔ بنکوں کے بورڈز کے پاس اختیار ہے کہ وہ کوئی قرضہ ان حالات میں معاف کر سکتا ہے۔ قرضوں کی فراہمی کے حوالے سے بنکوں کی مقرر کردہ اپنی حدود اور طریقہ کار ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں 50 ہزار قرض نادہندگان کے مقدمات زیر التواء ہیں۔ اگر ان مقدمات کی فوری پیروی کی جائے تو بنکوں کی رقم واپس آسکتی ہے۔ رانا محمد حیات نے کہا کہ قرضہ معاف کرنے والے خود کو دیوالیہ ڈیکلیئر کرتے ہیں۔ ماضی میں سیاسی حکومتوں نے ساٹھ ساٹھ کروڑ معاف کئے ہیں۔ پرویز مشرف دور میں بھی قرضے معاف ہوئے۔ پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے۔ اگر اس اسمبلی نے یہ قانون نہ بنایا تو پوری قوم سے کہتا ہوں کہ آئندہ الیکشن میں کسی کو ووٹ نہ دیا جائے۔ قومی پیسہ واپس لایا جائے۔ جو اس بل کی حمایت نہیں کرے گا قوم اس کو ووٹ نہیں دے گی۔ اگر یہ پیسے واپس نہ آئے تو ہم قومی مجرم ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست ایوان میں پیش کی جائے تاکہ کروڑوں کی گاڑیوں میں پھرنے والے لوگوں کو بے نقاب کیا جاسکے۔ یہ ایک بہت بڑی قومی خدمت ہوگی۔ لوٹی ہوئی رقم واپس لانے سے ہر گھر میں پینے کا صاف پانی فراہم کیا جاسکے گا۔ وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ یہ معاملہ سینٹ کی کمیٹی میں بھی ہے۔ 1990ء سے معاف کرائے گئے قرضوں کی فہرست سینٹ کی کمیٹی کو فراہم کردی گئی ہے۔ سپیکر نے توجہ مبذول نوٹس قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بھجوا دیا اور ہدایت کی کہ 15 دنوں میں اس پر رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے۔ سپیکر نے کہا کہ جن کے پاس قرضوں کے حوالے سے 50 ہزار مقدمات زیر التواء ہیں انہیں بھی کردار ادا کرنا چاہئے۔
قومی اسمبلی