امر واقعہ یہ ہے کہ ملک کے چند ہزار خاندانوں سے عبارت قومی وسائل پر قابض اشرافیہ نے اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر متحارب سیاسی عناصر کے خلاف الزام تراشیوں اور دشنام طرازیوں کا ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ سیاسی فضا میں مچھلی منڈی ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ ایسے میں جب کان پڑی آوازیں سمجھ نہ آ رہی ہوں تو ملک کی عظیم اکثریت کو اپنے مصائب و آلام سے نجات پانے کے لئے سوچنے ، سمجھنے اور سنبھلنے کا موقع نہ ملنا فطری امر ہے۔ یقیناً یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی بیس کروڑ کے لگ بھگ آبادی ہے جس میں عظیم ترین اکثریت پرستاران توحید اور عاشقانِ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طبقہ سوادِ اعظم کی ہے۔ جس کے نمائندہ علماء مشائخ اور پیرانِ طریقت نے قیام پاکستان کی جدوجہد کے ایک نازک موڑ پر 1946ء میں آل انڈیا سُنی کانفرنس بنارس میں منعقد کر کے بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ کے دو قومی نظریہ کی بھرپور تائید کرتے ہوئے پاکستان کے مطالبہ کی حمایت کی تھی۔ برصغیر کی تاریخ میں سوادِ اعظم اہلسنت کا اتنا بڑا اجتماع دیکھنے میں نہیں آیا، اس حوالے سے یہ ملی تاریخ کی ایک تابناک حقیقت ہے کہ دو قومی نظریہ کی حمایت میں اسلامیانِ ہند کے صحافتی محاذ پر اسی دور کے نوجوان صحافی ادارہ نوائے وقت کے بانی حمید نظامی نے دو قومی نظریہ کی تشہیر اور اسے سوادِ اعظم کے ایک ایک مرد و زن کے ذہنوں میں نقش کرنے کے لئے جس جرأت و ہمت اور جانفشانی کے ساتھ اپنے جوہر صحافت سے دلوں کو گرمایا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ تاریخ کے اوراق اس بات کی بھی گواہی دیتے ہیں کہ نہ صرف بانیٔ نوائے وقت حمید نظامی بلکہ معمار نوائے وقت مجید نظامی نے بھی حصول وطن کے بعد نظریہ پاکستان کے تحفظ اور بقاء کے لئے وقت کے آمروں اور جابر حکمرانوں کے خوف سے بے نیاز ہو کر قلمی جہاد جاری رکھا۔ جہاں تک ملک میں دو قومی نظریہ کے علمبرداروں کا تعلق ہے یہ برگزیدہ ہستیاں ارضِ وطن کے چپے چپے میں آسودہ خاک ہیں۔ کفرستان ، پاکستان و ہند میں ان کی تجلیوں سے کفرستان کے اندھیروں کے چھٹنے کی داستانیں صدیوں سے زبانِ زدعام چلی آ رہی ہیں۔ ان کے آستانوں، خانقاہوں، مقابر و مزارات کی کرامات و فیوض و برکات کا اعجاز ہے کہ خیبر سے کیماڑی اور بولان سمیت ملک کے زیر نگرانی دیگر علاقوں کے ان گنت مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو پیٹ بھر کر ایک دو وقت کا کھانا بھی نصیب ہوتا ہے۔ مگر یہ بات باعث حیرت ہونے کے علاوہ انتہائی افسوسناک بھی ہے کہ بیس کروڑ آبادی کے لگ بھگ والے ملک میں دو قومی نظریہ کے پرچارکوں کی قابلِ صد تعظیم اور خدائے بزرگ و برتر کی برگزیدہ ہستیوں کی تاریخ ساز بزرگ شخصیتوں میں سے ایک کی قریباً ساڑھے 450 چار سو سال سے قائم آرام گاہ میں دانستہ خلل ڈالا گیا۔
حضرت موج دریا بخاریؒ کا مزار مبارک قریباً ساڑھے چار سو سال سے مرجع خلائق ہے۔ جہاں سے روزانہ لاکھوں افراد علم و عرفان کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ حضرت موج دریا بخاریؒ کا مزار مبارک پرانی انارکلی پر واقع کبور تھلہ ہائوس فلیٹس کی عقبی سڑک پر اے جی آفس کے بالمقابل ایک وسیع و عریض جگہ پر واقع ہے۔ حضرت موج دریا بخاریؒ کا تعلق اوچ شریف کے روحانی خاندان سے ہے۔ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر سے لے کر مہاراجہ رنجیت سنگھ تک آپ کے معتقدین میں شامل تھے۔
آپ حضرت کی دعائوں کے نتیجے میں شہنشاہ اکبر نے فتوحات حاصل کیں۔ درگاہ حضرت موج دریا بخاری ؒ کی مسجد آپ نے خود بنوائی تھی۔ گذشتہ ٰ430 چار سو تیس برسوں سے اس مسجد میں پانچ وقت نماز باقاعدگی سے ادا ہوتی رہی۔ خدا سلام حکمرانوں کی اس سوچ کے ڈانڈے اولیاء اللہ کے مزارات و مقابرکی حرمت اور ان کے مکانات کو بے پردہ کرنے کے اقدامات سے گریز نہ کرنے والے کونسے عناصر سے ملتے ہیں کہ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے شہر میں صرف دو اڑھائی لاکھ افراد کو ٹرانسپورٹ مہیا کرنے کے لئے اورنج لائن ٹرین چلانے کی خاطر حضرت موج دریا بخاریؒ ایسے صدیوں سے آسودہ خاک اولیاء کرام کے مکانات کی حرمت کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔ کاش اس منصوبے میں شریک حکمرانوں کی چاپلوسی کرتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملانے والوں کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہو تاکہ اس شہر میں حضرت موج دریا بخاریؒ کے مزار مبارک سے صرف چند سو گز کے فاصلے پر صوفی بزرگ بابا بلھے شاہؒ کے مرشد سید عنایت شاہ قادریؒ کا مزار مبارک کوئینز روڈ لاہور میں واقعہ ہے۔ اس مزار مبارک پر بروقت عقیدتمندوں اور مداحوں کا جھمگھٹا رہتا ہے۔ وہاں بھی اپنے اپنے وقت کے بعض لوگوں نے دولت و ثروت کے گھمنڈ میں ارد گرد پلازوں کی تعمیرات کے منصوبے بنائے۔ مگر ایسی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی جبکہ اس سلسلے میں اپنی من مانیاں کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے قصۂ پارینہ بن گئے۔
تین سو برس قدیمی بھارت میں ہندوئوں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت پر پورا سوادِ اعظم اٹھ کھڑا ہوا خون کے آنسو رویا مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حضرت موج دریا بخاریؒ کی ساڑھے چار سو سالہ مسجد کو حکمرانوں نے اورنج لائن ٹرین وہاں سے گزارنے کے لئے پیوند زمین کر دیا۔ بعد میں اگرچہ اشک شوئی کے لئے قریبی جگہ خرید کر مسجد کے لئے مخصوص کی گئی ہے، مگر ایک اللہ کی برگزیدہ ہستی کی قائم کردہ تاریخی نوعیت کی مسجد ایک ایسے من مانے منصوبے کی خاطر زمین بوس کر دی گئی جسے اس حکومتی منصوبے کے روٹ کو تبدیل کر کے بچایا جا سکتا تھا۔ سواد اعظم کا اس پر خوں کے آنسو رونا لازمی ہے۔ حضرت کے مزار مبارک کے بیرونی ہشت پہلو سٹرکچر سے پندرہ قدم یعنی کوئی بیس بائیس فٹ کے فاصلے پر اورنج ٹرین کے لئے سرخ نشان لگایا گیا ہے۔ یہاں ا س تاریخی چبوترے پر 66 فٹ کھدائی ہو گی، چبوترے کا بیشتر حصہ نیست و نابود ہو جائے گا حضرت کی لحد مبارک جو نیچے 430 سالہ قدیمی تہہ خانے میں ہے اس سے چند قدموں کے فاصلے پر 60 فٹ کھدائی ہو گی۔
سوال یہ ہے کہ آخر ایسی کیا افتاد آن پڑی تھی کہ اورنج لائن ٹرین کو اسی جگہ سے گزارنا لازمی تھا۔ درحقیقت صاحبان ادراک و فہم اچھی طرح جان چکے ہیں کہ ارباب اقتدار کے ایسے ہی متکبرانہ انداز حکمرانی نے مخلوق خدا کو کسی نجات دہندہ کے لئے اللہ تعالیٰ سے لو لگانے پر مجبور کر رکھا ہے۔ اس ملک کے بے بس و مجبور اور بے نوا عوام تو ایک طرف رہے اب تو امت مسلمہ کی زیر زمین آسودہ راحت ہستیاں بھی حکمرانوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ ہیں۔ خدا دیکھ رہا ہے اس کے فیصلے کا بے بس قوم کو انتظار ہے۔ حضرت موج دریا بخاریؒ کے ماحول کی افسردگی قدرت برداشت نہیں کر سکے گی۔