عمومی طور پر دائیں بازو اور بائیں بازو کی اصطلاعات روس میں مارکسی انقلاب کے بعد دنیا کی سیاست میں مروج ہوئیں۔پاکستان میں بھی ان کے اثرات آئے۔تقسیم ہند سے قبل دانشوروں،صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں میں جو لوگ روس کے مارکسی انقلاب کے حامی تھے انہیں لفٹسٹ کہا جاتا تھا۔انہیں روس کے سرخ انقلاب کی نسبت سے ’’سرخ‘‘بھی کہا جاتا تھا۔انجمن ترقی منصفین نے ادبیات میں مارکسزم کی ترویج و تبلیغ کی۔سجاد ظہیر،جوش ملیح آبادی،فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی، انقلاب روس کے زبردست حامی تھے۔ان ’’سرخوں‘‘میں بھی دو قسم کے لوگ تھے۔اول وہ ادیب و شاعر جو صرف اور صرف اشتراکیت کے حامی تھے۔ یہ لوگ جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خلاف تھے اور معاشی و سماجی انقلاب کے حامی تھے۔ یہ اپنے آپ کو ’’مسلم سوشلسٹ‘‘ کہلواتے تھے۔ یہ صاحب ایمان تھے۔مولانا حسرت موہانی اور احمد ندیم قاسمی انقلابی و اشتراکی تھے مگر صاحب ایمان تھے۔ دوم وہ بائیں بازو والے تھے جو مارکیست کی اشتراکیت کے ساتھ دہریت کے بھی حامل تھے۔یہ لادین تھے۔منکر ین خدا تھے اسلامی اخلاقیات و نظریات کی جگہ مارکسی اخلاقیات و نظریات کے پیروکار تھے اور آج بھی ہیں۔اس طبقہ کے برعکس دائیں بازو کے دانشور اور ادیب ہیں جنہیں انگریزی زبان میں (Rightists)کہتے ہیں۔یہ لوگ مارکسزم کے مخالف ہیں۔ ان کی بھی دواقسام ہیں۔اول رجعت پرست، یہ لوگ مذہبی جنونی، قدامت پرست، تنگ نظر، شدت پسند ہیں۔ یہ ملوکیت کے حاشیہ بردار، سرمایہ داری اور جاگیرداری کے طرفدار اور فلسفہ تقدیر کے قائل ہیں۔دوم ان میں وہ طبقہ ہے جو توحید پرست اور صاحب ایمان ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی و معاشی انقلاب کے بھی حامی ہیں۔یہ لوگ اشتراکی نہیں لیکن انقلابی ہیں۔یہ ’’مساوات محمدی‘‘کے نقیب اور اسلامی اخلاقیات کے علم بردار روشن فکر اور اجتہادی نقطہ نظر کے حامی ہیں۔ڈاکٹر علامہ اقبال اس طبقہ کے سرخیل ہیں۔قرآن مجید نے سورۃ الواقعہ میں تین اقسام کے لوگ بروز محشر بیاں کیا ہے۔دائیں بازو والوں کو ’’اصحاب میمنہ ‘‘کہا جو اہل جنت ہوں گے۔بائیں بازو والوں کو ’’اصحاب المشمہ‘‘ کہا جو اہل دوزخ ہیں۔تیسرا گروہ ’’وابسقوں السبقون ‘‘کا ہوگا۔یہ دونوں گروہوں پر سبقت لے جانے والے ہیں۔ اس گروہ کو ’’مقربین خدا کہا گیا‘‘۔ یہ جنت کے اعلٰی مقامات میں ہوں گے۔یہ لوگ دائیں اور بائیں بازو سے علیحدہ ’’صراط مستقیم‘‘کے لوگ ہیں۔یعنی یہ ایمان و عمل کی منزل کے لوگ ہیں۔یہ توحیدی نظریات کے ساتھ ساتھ توحیدی نظام کے قائلیں اور عاملین ہیں۔اس گروہ میں انبیاء ،صلحائ،اولیاء اور مردان حق پرست ہی ہوسکتے ہیں اور یہی مقربین خدا ہیں۔یورپ میں پاپائیت اور کلیسا کی کئی صدیوں تک حکمرانی رہی اور آج بھی اٹلی میں پاپائے روم روحانیت و عیسائیت کے نام پر اپنا مذہبی سکہ جمائے ہوئے ہیں۔پروٹسٹنٹ عیسائی ترقی پسند اور روشن فکر ہونے کے مدعی ہیں او کیتھ لک عیسائیوں کو رجعت پرست اور شدت پسند قرار دیتے ہیں۔یورپ میں تحریک احیائے علوم نے ذہنی انقلاب برپا کردیا۔سیاست اور مذہب کو جدا کردیا گیا۔ کلیساء کی حکومت معاملات میں مداخلت بند کردی گئی جس کے نیتجے میں جمہوریت، مساوات، اعتدال پسندی اور روشن فکری نے جنم لیا۔اس تحریک مغرب کے اثرات افریقہ اور ایشیاء میں بھی ظہور پذیر ہوئے۔ سیکولر ازم نے اتاترک کی زیر قیادت ترکی میں ماڈرن ازم کا روپ دھارا۔ مذہب کی سیاست میں مداخلت ممنوع قرار پائی۔ مسلمانوں میں بھی دوطبقات نے جنم لیا۔ ایک طبقہ وہ جو سیاست میں مذہب کی مداخلت کو جائیز قرار دیتا ہے۔ یہ طبقہ مولویوں پر مشتمل ہے۔ یہ مولوی کی حکومت اسلامی حکومت قرار دیتے ہیں۔ ایران میں ’’ ولایت فقہہ‘‘کا نظریہ حکومت علماء ہے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام،جمعیت علمائے پاکستان، جماعت اہل حدیث،مجلس و حدت مسلمین اور تحریک یارسول اللہ مذہبی جماعتیں ہیں جو سیاسی بھی ہیں ۔یہ جماعتیں سنی ،شیعہ ،وہابی ،اہل حدیث،بریلوی اور دیوبندی مسالک کی جماعتیں ہیں۔ایک گزشتہ انتخابات میں جماعت اسلامی نے ’’کتاب‘‘ کو انتخابی نشان کے بطور استعمال کای اور قرآن مجید کے مذہبی تصور کے پیش نظر ووٹ مانگے۔ ’’تحریک لبیک یارسول اللہ‘‘ نے مسئلہ ختم نبوت پر 22 دن فیض آباد میں دھرنا دیا ان کا اعلان ہے کہ یہ جماعت 2018 کے الیکشن میں حصہ لے گی اور ’’یارسول اللہ‘‘کے نام پر انتخاب لڑے گی۔ گویا یہ جماعت بریلوی سنیوں کے جذبہ ایمان سے استفادہ کرے گی۔مسلکی سیاست نظریہ پاکستان کی نفی ہے۔اسلامی نظام کا قیام نظریہ پاکستان ہے۔ مولانا محمد علی جوہر نے ایک مرتبہ جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولویوں کی سیاست میں خوش آمدید کہہ کر انہوں نے بہت بڑی غلطی کی اور وہ اللہ سے معافی کے طلب گار ہیں۔علامہ اقبال اور قائداعظم اسلام کو سیاست سے جدا نہیں سمجھتے تھے۔ان کی سیاست کی بنیاد قرآنی سیاست تھی۔وہ انقلاب قرآنی کے داعی تھے۔وہ ’’مساوات محمدی‘‘ کے نظام کے علمبردار تھے۔وہ اسلامی ریاست سے مراد مولویوں کی حکمرانی کے قائل نہ تھے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلام دشمنی پر ووٹ لیئے۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اسلام دشمنی پر ووٹ لیئے۔مذہب یا مسللک کے نام پر سیاست تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ آج مسلکی اختلاف کی بدولت ایران اور سعودی عرب جنگ کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ یہ روشن فکر اور انسانیت دوست دانشوروں کا فریضہ ہے کہ وہ مذہب و مسلک کی آگ کو ٹھنڈا کریں اور مذہب کے نام پر انسانوں کے استحصال کا سدباب کریں۔اعلان نبوت پر مکہ کے مشرکین نے سخت رد عمل کا اظہار کیا۔اعلان توحید پر بُت پرست برہم ہوگئے۔ عرب قبائیلی معاشرہ ہے۔ہر قبیلہ کا بت ان کی نمائندگی کرتا تھا۔ بت پرستی صرف مذہبی رسم نہ تھی بلکہ اس کے ساتھ اقتصادی اور سماجی مراعات و اعزازت منسلک تھے۔ سرداری نظام تھا۔ خدائے واحد کے اقرار سے ان کی سرداریاں خطرے میں تھیں۔ انہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوڑ دیئے۔ حضورؐ کے چچا حضرت ابو طالب سے سماجی مقاطعہ کیا۔ آپ مکہ سے چند میل دور پہاڑی رہائش گاہ شعب ابی طالب میں بمع خاندان منتقل ہوگئے۔اہل مکہ نے آپ کا آب و دانہ بند کرنے کی سازش کی۔ خاندان حضرت ابوطالب تین سال تک وہاں محصور رہا۔ یمامہ کا رئیس ثمامہ بن اثال غلے کا تاجر تھا۔اور اہل مکہ کو غلہ سپلائی کرتا تھا دشمن اسلام تھا۔اس نے ایسا انتظام کیا کہ غلے کا ایک دانہ تک شعب ابی طالب تک نہ پہنچ سکے۔ حضرت ابو طالب باخبر تھے کہ ان کا بھتیجا محمدؐ نبی ہے۔ اس کی حفاظت فریضۂ دینی ہے۔ ثمامہ نے ان پر غلے کی رسد دشمنی رسول مقبولؐ کے سبب بند کی‘ لیکن وہ ہجرت رسول کے بعد ایک واقعہ میں مسلمانوں کے ہاتھـوں گرفتار ہوا اور اسے دربار رسالت میں پیش کیا گیا تو حضورؐ نے حکم دیا کہ اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیا جائے۔ ثمامہ نے پیش رحمت دوعالم عرض کیا کہ اگر اسے قتل کردیا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ وہ اسی سزا کا مستحق ہے اگر معاف کردیں تو احسان ہوگا اگر فدیہ لے کر رہا کریں تو زر فدیہ ادا کرنے کو تیار ہوں۔پیغمبررحمت نے تیسرے دن ثمامہ کو معاف کرکے آزاد کردیا۔ثمامہ حیرت زدہ ہوگیا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ مکہ واپس گیا تو اہل مکہ نے لعن طعن کی اور قبول اسلام پر سیخ پا ہوئے مگر اب ثمامہ صحابی رسول بن چکے تھے اب وہ ’’حضرت ثمامہ‘‘ تھے۔ رسول رحمت نے فتح مکہ کے دن تمام مشرکین کے لئے معافی کا اعلان کیا۔ دشمن اسلام سردار مکہ ابوسفیان کو بھی معاف کردیا مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نام نہاد مسلمان اور مذہبی جنونی اور شدت پسند سنت رسول ؐ پر عامل ہیں۔چند سال قبل مجھے فلسطین کے سفیر عبدالرزاق نے بتایا کہ ایک عرب ملک نے کالجوں سے پچاس طلبہ کوگرفتار کیا کیونکہ وہ ملوکیت کے خلاف تھے اور انہیں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے لق و دق صحرا میں پھینک دیا جہاں وہ بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرگئے۔پاکستان میں جنرل ضیاء الحق نے اسلام کا نام استعمال کیا اور سیاسی مخالفین کو سرعام کوڑے مارے اور سال ہا سال تک نذر زنداں کیا۔اسلام کے یہ نام نہاد علم بردار کیا رحمت عالمین ساکردار اپنا سکتے ہیں،انہیں اسلام سے نہیں اسلام آباد سے دلچسپی ہے۔