سینٹ انتخابات:ن لیگ نے میدان ما ر لیا،پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر ،متحدہ کا پیپلز پارٹی پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام، رضا ربانی اور اسحق ڈار نشستیں بچانے میں کامیاب

Mar 03, 2018 | 18:53

ویب ڈیسک

  سینیٹ کے الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے میدان مار لیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر رہی ،موجودہ چیرمین سینیٹ رضا ربانی اور سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار اپنی نشستیں بچانے میں کامیاب،عمران خان ،شیخ رشید،فاروق ستار اور پرویز الٰہی سمیت کئی اہم رہنماو¿ں نے حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔ایوان بالا (سینیٹ ) کے الیکشن کا مرحلہ مکمل ہو گیا جس میں ن لیگ نے میدان ما ر لیا،پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر رہی ،پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ(ن) سندھ میں پیپلز پارٹی،کے پی کے میں تحریک انصاف اور بلوچستان میں آزاد امیدوار سر فہرست رہے ۔ ممبران کے انتخاب کے لیے چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کو پولنگ سٹیشن قرار دیا گیا تھا ، جہاں عوامی نمائندوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا گیا ۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ایوان بالا کی خالی ہونے والی 52 نشستوں کیلئے 131 امیدوار میدان میں ہیں ۔ جن میں پیپلز پارٹی کے 20، ایم کیو ایم پاکستان کے 14، تحریک انصاف کے 13، پاک سرزمین پارٹی کے 4 اور 65 آزاد امیدوار شامل ہیں۔ آزاد امیدواروں میں مسلم لیگ (ن) کے وہ 23 امیدوار بھی شامل ہیں جو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑسکے کیونکہ عدالتی فیصلے کے بعد انہیں آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑنے کی اجازت دی گئی۔ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مسلم لیگ(ن) کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار مشاہد حسین سید ٹیکنو کریٹ اور اس جونیجو کو جنرل نشست پر کامیاب قرار دے دیا گیا ۔ غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق ، پنجاب کی جنرل نشست سے مسلم لیگ(ن) کے آزاد امیدوار آصف کرمانی ، زبیر گل ، مصدق ملک ، مقبول احمد ، ہارون اختر، محمود الحسن کامیاب ہوئے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری محمد سرور نے بھی کامیابی حاصل کی۔ پنجاب کی ٹیکنو کریٹ سیٹ پر اسحاق ڈار اور حافظ عبدالکریم ، پنجاب سے اقلیت کی آزاد نشست سے کامران مائیکل ، پنجاب سے خواتین کی آزاد کی نشست سے نزہت صادق ، سعدیہ عباسی کامیاب ہو گئیں۔ سینیٹ میں پنجاب کی 12 نشستوں میں سے سات جنرل نشستیں، دو خواتین کی مخصوص نشستیں، دو ٹیکنوکریٹ اور ایک اقلیتتی نشست پر الیکشن ہوا۔ پنجاب سے ان 12 نشستوں پر الیکشن کے لیے 20 امیدوار آمنے سامنے تھے ۔غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ امیدواروں نے 11 نشستیں جیت لی ہیں جبکہ ایک سیٹ پر پی ٹی آئی کے چوہدری سرور نے میدان مارا۔ پنجاب اسمبلی میں 368 اراکین نے ووٹ ڈالے اور یہ 100 فیصد ووٹر ٹرن آوٹ ہے۔ سینیٹ کی جنرل نشستوں کے انتخابات میں کے پی سے پی ٹی آئی کے فیصل جاوید، فدا محمد، ایوب آفریدی جمعیت علمائےاسلام (ف) کے طلحہ محمود، پی پی پی کے بہرمند تنگی اور مسلم لیگ(ن) کے حمایت یافتہ پیر صابرشاہ نے کامیابی حاصل کی ہے۔ جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان بھی جنرل کی سیٹ پر کامیاب ہوئے۔ ٹیکنو کریٹ کی نشست پر اعظم سواتی تحریک انصاف کی ٹکٹ پر اور مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ امیدوار دلاور خان منتخب ہوئے ہیں، پی پی پی کی روبینہ خالد اور پی ٹی آئی کی ایم پی اے مہر تاج روغانی بھی سینیٹر بننے میں کامیاب ہوگئی۔واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار مولانا سمیع الحق اور انیسہ زیب کامیاب نہیں ہو سکے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ غیر حتمی نتائج کے مطابق فاٹا کی چار نشستوں پر کامیاب ہونے والے امیدوار ہدایت اللہ، شمیم آفریدی، ہلال الرحمان اور مرزا محمد آفریدی ہیں۔ فاتح ارکان 7 ، 7 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔فاٹا سے 11 اراکین نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنا تھا تاہم ان میں سے 8 اراکین نے ووٹ ڈالے۔ تین اراکین نے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے تحفظات کے پیشِ نظر ووٹ نہیں ڈالے۔سندھ کی 12 نشستوں میں سے 10 نشستوں پر پیپلز پارٹی کامیاب ہو گئی ہے۔ جنرل نشست پر پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو، محمد علی شاہ، مرتضی وہاب جاموٹ، ایاز مہراور مصطفی نواز کھوکھر کامیاب ہوگئے ہیں۔ جبکہ ایم کیوایم کے فروغ نسیم بھی جنرل کی سیٹ پر کامیاب ہوگئے ہیں۔ ایک نشست پرفنکشنل لیگ کے مظفر حسین شاہ کو کامیابی ملی ہے۔ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر پیپلز پارٹی کے سکندر میندھرو اور رخسانہ زبیری سینیٹر منتخب ہوگئے۔ اقلیتی نشست پر پیپلز پارٹی کے انور لال ڈین جبکہ خواتین کی مخصوص نشست پر پی پی پی کی ہی کرشنا کوہلی اور قر العین مری الیکشن جیت گئیں۔ بلوچستان اسمبلی سے 8 آزاد امیدوار، نیشنل پارٹی اورپشتونخواملی عوامی پارٹی کے 2,2 جبکہ جمعیت علمائے اسلام کا ایک امیدوار کامیاب ہوا ‘سینٹ الیکشن کے دوران سیکورٹی سخت انتظامات کئے تھے ‘تفصیلات کے مطابق  بلوچستان اسمبلی میں الیکشن کمیشن کے صوبائی چیئرمین مجید نعیم جعفر کی سربراہی میں صبح9بجے سے شام چار بجے بغیر وقفے جاری رہا ‘بلوچستان اسمبلی میں کل اراکین کی تعداد 65 ہے لیکن گزشتہ روز منظور کاکڑ کو الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیا جس کے باعث تمام 64 اراکین نے ووٹ ڈالے اور اس طرح صوبائی اسمبلی میں ووٹرز کا ٹرن آوٹ 100 فیصد رہابلوچستان میں 7 جنرل نشستوں پر 15 امیدوار میدان میں تھے جن میں سے 7 نشستوں پر 5 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جب کہ جنرل کی 2 نشستوں پر جے یو آئی (ف) اور نیشنل پارٹی کا ایک، ایک امیدوار کامیاب ہوا‘بلوچستان سے جنرل نشست پر آزاد امیدوار احمد خان، صادق سنجرانی‘ انوار الحق ‘کہدہ بابر سینیٹر منتخب ہوگئے ہیں جب کہ پشتونخوا میپ کے حمایت یافتہ سردار شفیق احمد ترین اور نیشنل پارٹی کے محمد اکرم بھی کامیاب قرار پائے ‘اس کے علاوہ جے یو آئی کے مولوی فیض محمد بھی سینیٹر منتخب ہوگئے ہیں‘ اسی طرح ٹیکنیوکریٹ کی نشست پر ہم خیال گروپ کے نصیب اللہ بازئی اور نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو کامیاب ہو گئے جبکہ خواتین کی نشست پر پشتونخواملی عوامی پارٹی کی حمایت یافتہ عابدہ عمر اور ہم خیال گروپ کے ثناءجمالی سینٹر منتخب ہو گئے۔ واضح رہے پولنگ کے دوران بلوچستان اسمبلی میں کسی بھی ناخوشگوار سے نمٹنے کےلئے سینیٹ انتخابات کے موقع پر ماحول پر امن رکھنے کے لیے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر وزارت داخلہ نے اسمبلیوں کی سیکیورٹی ایف سی‘پولیس اور بلوچستان کانسٹبیلری کی بھاری نفری تعینات رہی‘الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے ضابطہ اخلاق کے مطابق اراکین کے پولنگ اسٹیشن میں موبائل فون لانے پر مکمل پابندی تھی‘وقت ختم ہونے کے بعد جو لوگ پولنگ اسٹیشن کے اندر موجود تھے صرف ان ہی کو ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت تھی۔واضح رہے کہ آج کے سینیٹ الیکشن میں کچھ ارکان اسمبلی نے حصہ نہیں لیا ان میں کنور نوید جمیل اور ڈاکٹر ناہید کے علاوہ مسلم لیگ ن کے عبدالقادر بلوچ اور جام کمال شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ کے طاہر اقبال اور نثار جٹ نے بھی ووٹ نہیں ڈالا دونوں مسلم لیگ ن کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ عمران خان، عارف علوی اور اسد عمر بھی ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں آئے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے بھی ووٹ نہیں ڈالا کلثوم نواز بیماری کے باعث اب تک حلف نہیں اٹھا سکیں جس کی وجہ سے وہ بھی پولنگ میں شریک نہیں ہوسکیں۔ چوہدری پرویزالہی نے بھی سینیٹ انتخابات کیلئے حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔ اب تک موصول ہونے والے غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق مجموعی طور پر پاکستان مسلم لیگ(ن)کے حمایت یافتہ 15 امیدوار کامیاب ہوئے۔مجموعی طور پر 12 آزاد امیدوار، پاکستان پیپلز پارٹی کے 11، پاکستان تحریک انصاف کے 4، جمعیت علمائے اسلام اور نیشنل پارٹی کے دو دو جبکہ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور ایم کیو ایم پاکستان کا ایک امیدوار کامیاب ہوا۔دریں اثناء ایم کیو ایم نے سندھ میں پیپلز پارٹی پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائد کیا ہے ۔متحدہ قومی موومنٹاکستان کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے سینٹ انتخابات میں سندھ اسمبلی میں بدترین ہارس ٹریڈنگ کی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اس عمل کو جمہوریت کہتی ہے۔کراچی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ارکان کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا اور بے باکی کے ساتھ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کی اور ہمارے 6 سے 7 ارکان کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی اطلاعات ہیں۔ان کا کہنا تھا جو آج ہوا اس پر یہ انتخابات جانبدارانہ ہوجاتے ہیں اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر آگاہ کیا جائے گا۔فاروق ستار کا کہنا تھا کہ جس طرح ایم پی ایز کو یرغمال بنایا گیا اس کی مذمت کرتا ہوں اور پیپلز پارٹی کو خبردار کرتا ہوں کہ سینیٹر بنانے کے لیے آج جو پیپلز پارٹی نے کیا ہے وہ مستقبل میں اس کا خود شکار ہوں گے اور جو گڑھا پیپلز پارٹی نے کھودا ہے وہ خود اس میں گریں گے۔انہوں نے کہا کہ مجھ پر تجوریاں بھرنے کا الزام لگانے والے پہلے خود اپنے گوشوارے پیش کریں بلکہ سندھ کے تمام وڈیرے اور جاگیردار بھی اپنے گوشوارے پیش کریں میں بھی اپنے تمام گوشوارے پیش کروں گا۔بعد ازاں نتائج سامنے آنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ کچھ وجوہات کی بنا پر ہم ایک ہی سیٹ نکال سکے، تاہم ایم کیو ایم سینیٹ الیکشن کی دوڑ سے مکمل باہر ہونے سے بچ گئی۔ان کا کہنا تھا کہ تنظیمی بحران کی وجہ سے سینیٹ الیکشن پر اثر پڑا، تنظیمی بحران نہ ہوتا تو کامران ٹیسوری کے لیے ووٹ جمع کر لیتے، ہمارے 14 ارکان نے اپنے ضمیر کا سودا کیا اور تنظیمی بحران کا بہانہ بنا کر میرے کچھ ایم پی ایز نے خود کو بیچنا شروع کردیا۔فاروق ستار نے ایک بار پھر سینیٹ انتخابات میں بدترین ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے آج اپنے لیے گڑھا کھودا ہے، جبکہ ہماری بہنوں کی بے بسی کا فائدہ اٹھایا گیا۔کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما کنور نوید جمیل نے الزام لگایا کہ سینٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی۔ان کا کہنا تھا کہ عام انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھائیں گے اور ووٹرز کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے۔پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سےگفتگو میں محمود الرشید کا کہنا تھا کہ دھاندلی کے باوجود پنجاب میں ایک نشست حاصل ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ ابھی سینیٹ کی ایک نشست جیتے ہیں اور اگلے ہدف میں عام انتخابات میں کا میابی حاصل کرکے پنجاب میں حکومت بھی بنائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اب تحریک انصاف پنجاب اور مرکز میں بھی کامیابی حاصل کرے گی اور عمران خان وزیراعظم ہوں گے۔پی ٹی آئی کے رہنما نے پارٹی کے اراکین کے علاوہ جماعت اسلامی اور آزاد اراکین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اب میں پوری دنیا میں پاکستان کے امیج کو بہتر کروں گا۔بعد ازاں پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کے انتخابات کا کامیاب انعقاد جمہوریت کی فتح ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں سینیٹ کی 12 نشستوں میں سے 11 پر مسلم لیگ ن نے فتح حاصل کی ہے جو نواز شریف کی فتح ہے۔انھوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات سبوتاژ کرنے والوں کوناکامی ہوئی اور جمہوریت میں مسلم لیگ ن اور نوازشریف کے کردارکو مائنس نہیں کیا جا سکتا، نواز شریف پاکستان کے مقبول ترین عوامی لیڈر ہیں۔رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت میں ہے اور کنٹرولڈ ڈیموکریسی کاخواب اب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا اور کسی کٹھ پتلی وزیراعظم کی گنجائش نہیں ہے۔صوبائی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کانشان نہ ہونے کے باوجود نوازشریف کے منتخب کردہ امیدوار کامیاب ہوئے۔
شہباز شریف طبیعت کی ناسازی کے باوجود ووٹ ڈالنے کےلئے آئے
وزیر اعلیٰ پنجاب  طبیعت کی ناسازی کے باوجود ووٹ ڈالنے کے لئے پنجاب اسمبلی آئے۔ شہباز شریف تقریباً دس منٹ تک پنجاب اسمبلی میں موجود رہے اور ووٹ ڈالنے کے فوری بعد واپس روانہ ہو گئے۔شہباز شریف نے کہا کہ سینیٹ الیکشن کے بروقت انعقاد سے طوطا فال نکالنے والوں کو مایوسی ہوئی ہے۔سینیٹ الیکشن کے انعقاد سے جمہوری اداروں کو تقویت ملی ہے۔ یاد رہے کہ شہباز شریف یکم مارچ کو سینیٹ کے ضمنی انتخاب میں ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے بھی اسمبلی آئے تھے۔
رانا ثناءاللہ نے سب سے پہلا ووٹ کاسٹ کیا
سینیٹ انتخابات کے لئے پنجاب اسمبلی میں ہونے والی پولنگ کے دوران صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے سب سے پہلے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ رانا ثنا اللہ خان جو سینیٹ انتخابات میں اپنی جماعت کی جانب سے نگران کا کردار بھی ادا کر رہے تھے گروپ لیڈرز سے اراکین اسمبلی کی آمد بارے بھی پوچھتے رہے۔
 ایم کیوایم کے 6 ارکان نے وفاداریاں تبدیل کرکے پی پی کو ووٹ دیدیا
سینیٹ کے الیکشن میں ایم کیوایم پاکستان کے 6 ارکان نے وفاداریاں تبدیل کرلیں۔ذرائع کے مطابق ایم کیوایم پاکستان نے اپنے تمام ارکان کو سندھ اسمبلی کے ایک کمرے میں جمع کیا تھا اور انہیں ایک ساتھ جاکر ووٹ کاسٹ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کے 6 ارکان نے پارٹی کی ہدایات سے نہ صرف انحراف کیا بلکہ اپنی وفاداریاں تبدیل کرلیں۔ذرائع کے مطابق ایم کیوایم کے 6 ارکان میں 4 خواتین، ایک اقلیتی رکن اور اندرون سندھ کے ایک ایم پی نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا جب کہ یہ ارکان اسمبلی آنے کے باوجود پارٹی سے بھی رابطے میں نہیں تھے۔

عمران خان اور شیخ رشید نے ووٹ پول نہیں کیا
 پارلیمان پر لعنت کا لفظ استعمال کرنے والے عمران خان اور شیخ رشید نے ووٹ پول نہیں کیا۔ سینیٹ کے الیکشن کے دوران متعدد ارکان قومی اسمبلی نے ووٹ پول نہیں کیا۔ان ارکان میں عمران خان اور شیخ رشید بھی شامل ہیں جنھوں نے لاہور میں متحدہ اپوزیشن کے جلسے کے دوران پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کے الفاظ استعمال کئے تھے۔ عمران خان اور شیخ رشید جڑواں شہروں میں موجود ہونے کے باوجود اسمبلی نہیں آئے۔اس کے علاوہ ایم کیو ایم کے سربراہ فاروق ستار کراچی میں موجود رہے اور قومی اسمبلی میں ووٹ دینے نہیں آئے ۔قومی اسمبلی میں342کے ایوان میں 300ایم این ایز نے ووٹ پول کئے جن میں سے 13ووٹ مسترد ہوئے۔
کلثوم نواز سینیٹ الیکشن میں ووٹ پول نہیں کر سکیں
اسلام آباد(اے این این ) کلثوم نواز سینیٹ الیکشن میں ووٹ پول نہیں کر سکیں ۔ہفتہ کو سینیٹ کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے 300ارکان نے ووٹ کا استعمال کیا تاہم سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز علالت کے باعث الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں ۔کلثوم نواز ضمنی الیکشن میں کامیابی سے پہلے ہی لندن میں زیر علاج ہیں ۔کلثوم نواز کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں اور ابھی تک رکن اسمبلی کی حیثیت سے حلف بھی نہیں اٹھا سکی ہیں ۔

شازیہ فاروق کا ایم کیوایم کو ووٹ نہ دینے کا اعتراف
ایم کیو ایم کی رکن سندھ اسمبلی شازیہ فاروق نے ایم کیوایم کو ووٹ نہ دینے کا اعتراف کرلیا۔اپنے وڈیو پیغام میں شازیہ فاروق نے کہا کہ پارٹی تقسیم میں صرف اورصرف کامران ٹیسوری وجہ بنے، میں نے اپنا ووٹ ایم کیو ایم کو نہیں دیا، فاروق ستار لیڈر بننے کے لائق نہیں رہے۔ان کا کہنا تھا کہ فاروق ستار نے کامران ٹیسوری کامسئلہ اٹھاکرہمیں25دن اذیت میں رکھا، 5 فروری سے ایم کیو ایم اور پتنگ پر لڑائی شروع ہوئی، یہ وہ ایم کیو ایم نہیں جس کے ساتھ میں رہی۔

شہبازشریف کی مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ نومنتخب سینیٹرز کوکامیابی پر مبارکباد

وزیراعلیٰ پنجاب  نے سینیٹ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدواروں کو مبارکباد دی ہے۔وزیر اعلیٰ نے مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ نو منتخب سینیٹرز کے نام اپنے تہنیتی پیغام میں کہاہے کہ نومنتخب سینیٹرز آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوری عمل کے استحکام کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لائیں گے اور قانون سازی میں اپنا موثر کردارادا کریں گے۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ توقع ہے کہ نومنتخب سینیٹرز اراکین اسمبلی کی توقعات پر پورا اتریں گے اور اپنے منصب کی لاج رکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ آج کے سینیٹ انتخابات کے نتائج سے واضح ہو گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے اور عوام کے دلوں میں بستی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جھوٹ کا سہارا لینے والے عوام کے دلوں سے مسلم لیگ (ن) کی محبت کبھی نہیں نکال سکتے۔جھوٹ اور انتشار کی سیاست کے علمبرداروں کیلئے سینیٹ انتخابات نوشتہ دیوار ہیں اور آئندہ عام انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) پہلے سے بھی زیادہ اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرے گی۔ 

جڑانوالہ سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے حمایت یافتہ رانا مقبول اور پی ٹی آئی کے چودھری سرور سینیٹر منتخب،آبائی گاﺅں میں ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے اور مٹھائیاں تقسیم
جڑانوالہ سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے حمایت یافتہ رانا مقبول اور پی ٹی آئی کے چودھری سرور سینیٹر منتخب ۔ آبائی گاﺅں میں ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ سینیٹر منتخب ہونے والے رانا مقبول کا تعلق آبائی گاﺅں 240گ ب اور چودھری سرورکاتعلق آبائی گاﺅں109ر۔ب سے ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینیٹ الیکشن میں کامیاب ہونے والے 2سینیٹرز کا تعلق جڑانوالہ سے ہے ن لیگ کے حمایت یافتہ کامیاب ہونے والے سینیٹر رانا مقبول کا تعلق آبائی گاﺅں 240گ ب اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ منتخب ہونے والے سینیٹر چودھری سرور کا تعلق آبائی گاﺅں109ر۔ب جڑانوالہ سے ہے۔یادر ہے کہ چودھری سرور سابق گورنر پنجاب کے عہدے جبکہ رانا مقبول آئی جی سندھ کے عہدے پر فائز رہے تھے ۔ جڑانوالہ کے 2سینیٹر ز منتخب ہونے پر ان کے آبائی گاﺅں میں حمایتیوں و سپورٹران نے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔

مزیدخبریں