ایوان بالاکے الیکشن ATM مشینوں کے منہ کھل جانے کے الزامات

Mar 03, 2018

خالد مصطفی صدیقی
پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں مولوی تمیزالدین سے لے کر میاں نواز شریف کی نا اہلی کے فیصلے پر سیاسی جماعتوں، سیاسی حکومتوں، اور سیاست دانوں نے سرفہم تسلیم کیا ہے۔ مولوی تمیزالدین کیس کو آج تک تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ لیکن عوامی رد عمل اپنی جگہ موجود رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل اوران کے خون کے چھینٹے آج قانون کے دامن پر دھبہ ہے۔ اس فیصلہ کو آج تک کسی عدالت میں بطور نظیر پیش نہیں کیا جاتا ۔ آئین کا آرٹیکل 10 کسی بھی شہری کو فری ہینڈ فیر ٹرائل کا یکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے او یہ یقین بھی کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں لوگوں کو فوری اور سستا انصاف ملنا شروع ہو جائے گا، سابق وزیراعظم نواز شریف عدالت کو برہم کر کے جہاں لے جانا چاہتے تھے وہ لے آئیں ہیں اور میاں صاحب اب اپنی پسندیدہ پچ اپنی عوام کی عدالت میں بھرپور اننگر کھیل رہے ہیں لیکن راقم االخروف کا مشورہ ہے کہ اس سارے عمل میں اداروں کا احترام مخلوظ خاطر رکھا جائے،اوراداروں کا اخترام ہو نا بھی چاہئے ۔میاں نواز شریف اس موجودہ صورتحال کو آخری حدوں تک لے جانا چاہتے ہیں۔اگلے انتخابات اگر ہوئے کیونکہ لودھراں کے الیکشن کے بعد ان انتخابات کا ہونا مشکوک نظر آتا ہے اگلے انتخابات میں کرپشن کا ایشو کوئی ایشو نہیں ہوگا۔ پنجاب میں شہباز شریف کی کارکردگی اور نواز شریف کا بیانیہ مجھے کیوں نکالا سیاسی نعرہ ہوگا۔1999ء کے نواز شریف اور موجودہ نواز شریف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔20ویں صدی کا نواز شریف جیل اور اہل خانہ ایک معاہدہ کر کے جدہ چلے گئے تھے لیکن 21 صدی کا نواز شریف عدالت میں ہتھکڑی لگوا کر جیل جانے کیلئے بالکل تیار ہے ۔وہ بلا خوف وخطر جیل کو ترجیح دیں گے۔اب انہیں پارٹی صدارت سے نااہل کر دیا گیا ہے۔ اس ملک میں سیاست دانوں کو شہید بنانے یا امر کرنے میں ہماری غیر سیاسی قوتوں کا بہت عمل دخل رہا ہے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر یہ سمجھنے والے غلطی پر تھے کہ بھٹو ختم ہو جائے گاتو اس کا سیاسی ستارہ بھی ڈوب جائے گا۔ بھٹو چالیس سال سے گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں ہے اور سیاست کر رہا ہے ۔گرینڈ ڈائیلاگ وقت کی اہم ضرورت ہیں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو مکمل اتحاد اوریکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ووٹ ایک اہم طاقت ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات پر لگایا جا سکتا ہے کہ اس ووٹ کی طاقت کے ذریعے قائداعظم نے اپنی سے تین گناہ بڑی طاقت کو للکارااور ہندوستان کو تقسیم کرکے رکھ دیا۔ اور جب اس ووٹ کا غلط استعمال شیخ مجیب الرحمان نے کیا تو ملک توڑ کر رکھ دیا۔ اس سلسلے میں اگر گرینڈ ڈائیلاگ کامیاب نہیں ہوتا تو ریفرنڈم کرایا جائے اور عوام کی رائے کو حتمی تصور کیا جائے۔کل سینٹ انتخابات کے الیکشن ہیں اور ن لیگ باہر جا چُکی ہے اور اب یہ آزاد حیثیت سے سینٹ کا الیکشن لڑے گی ۔ ٹریڈرنگ کی باتیں زبان زدعام ہیں اس حوالے سے تحریک انصاف چیئرمین عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ ان کو پچاس کروڑ کی آفر کی گئی ہے میری ان سے درخواست ہے کہ وہ اس شخص کا نام بتا دیں تاکہ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ سینٹ کی ٹکٹوں کی تقسیم میں تحریک انصاف نے میرٹ سے کام نہیں لیااور کے پی کے میں ارب پتی حضرات کو ٹکٹ جاری کر کے کارکنوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ چیئرمین قومی وطن پارٹی جناب آفتاب شہریار نے الزام لگایا ہے کہ ان اے ٹی ایمز سے پیسے لے کر ارکان اسمبلی میں تقسیم کئے جائیں گے انہوں نے مزید الزام لگایا کہ پی ٹی آئی کے 30 ارکان صوبائی اسمبلی اپنے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے پیپلز پارٹی نے بھی اپنے وفادار اور کارکنوں کو سینٹ کے ٹکٹ جاری کئے ہیں جس سے سیاسی ورکروں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا ہے۔ مسلم لیگ نواز جو اب آزاد حیثیت سے لڑے گی لاہور سے اپنے وفادار کارکنوں کو ٹکٹ جاری کر کے میرٹ کی پاس داری کی ہے۔ لاہور سے ڈاکٹر سید آصف سعید کرمانی جیسے وفادار سیاسی کارکن جن کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے ،لیکن یہ گھرانہ پرانا مسلم لیگی اور سیاسی گھرانہ ہے ان کے والد جناب سید احمد سعید کرمانی جو تحریک پاکستان کے اہم رہنما اور قائداعظم کے ساتھی جنہوں نے قائداعظم کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کی اور اسی طرح ڈاکٹر آصف سید کرمانی ہر اچھے اور بُرے وقتوں میں مسلم لیگ کے ساتھ رہے۔ جب (ن) لیگ کی قیادت جلد وطنی کی زندگی گزار رہی تھی ان جیسے کارکنوں نے مسلم لیگ کا پرچم تھامے رکھا۔ آصف کرمانی نے بھی اپنی سیاست کا آغاز نواز شریف کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کرتے ہوئے کہا ہے۔ دوسرا ٹکٹ جو نہال ہاشمی کی جگہ دیا گیا ہے وہ لاہور کے ایک سیاسی کارکن ڈاکٹر اسد اشرف بھی آزاد لڑیں گے ڈاکٹر اسد اشرف کے بھائی جاوید اشرف نے مسلم لیگ نواز نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے جبکہ تحریک انصاف نے لاہور سے چودھری سروراور عندلیب عباس کو ٹکٹ جاری کر کے گونگلوں سے مٹی جھاڑنے والی بات کی ہے۔ اگر کارکنوں کو ایڈمٹ ہی کرنا تھا تو کے پی کے سے بھی ٹکٹ جاری کئے جا سکتے تھے۔پیپلز پارٹی معلوم نہیں کیوں ضمنی انتخابات میں شرکت کر کے اپنی جگہ تنہائی کا مواقع فراہم کرکے آئندہ انتخابات میں اپنی بار گلپنگ پوزیشن کو خراب کر رہی ہے پیپلز پارٹی کی پنجاب میں موجودہ صورتحال کا فائدہ تحریک انصاف کو پہنچا تھا۔لیکن تحریک انصاف اس سے فائدہ نہ اٹھا سکی۔ تحریک انصاف کی غلط پالیسیوں اور عمران کے غلط بیانیہ نے یہ صورتحال ان کے ہاتھ سے نکال دی ہے اور ایک مرتبہ پھر طاقت کا توازن نواز شریف کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے اگلے انتخابات میں پنجاب مسلم لیگ نواز کیلئے ایک کھلا میدان ہوگا۔ لودھراں جیسے سیف بنکر ہیں واضح شکست نے تحریک انصاف کے لئے خطرہ کی گھنٹی بجا دی ہے۔ تحریک انصاف ایک طرف تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ فاروق ستار، مصطفی کمال اور سلیم شہزاد کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دے رہے ہیں۔ سلیم شہزاد کو کون نہیں جانتا یہ وہ سلیم شہزاد ہیں جو ٹارچر سیل اور ڈرل سینٹر چلایا کرتے تھے۔ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف اسی سودے اور قیادت کے ساتھ اتری تو اس کااللہ ہی خافظ ہے اور اس کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ تحریک کو چاہئے کہ وہ سیاست کے اس بازار میں کوئی نیا چورن لے کر میدان میں اترے ورنہ خدشہ ہے کہ 2015 کے انتخابات کی طرح تحریک انصاف تحریک اشتعال نہ بن جائے۔

مزیدخبریں