پارلیمنٹ کا اجلاس۔ نواز شریف کی ضمانت کی منسوخی

پلوامہ واقعے کے بعد بھارت نے پاکستان کی فضائی حدود میں در اندازی کر کے پاکستان اور بھارت کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اس واقعے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کیلئے اپوزیشن کے مطالبے پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس دو روز تک منعقد ہوتا رہا جس کی اہم بات یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر بھارتی جارحیت کے خلا ف مسلح افواج کی پشت پر کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک نیک شگون ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کشیدگی اور ’’تلخی‘‘ کو با لائے طاق رکھ کر ایک ’’صفحہ ‘‘ پر کھڑی ہو گئی ہیں۔
پارلیمنٹ کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن نے اختلافی بات کرنے سے گریز کیا۔ پارلیمنٹ کے سیشن میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے، قومی اسمبلی کے رکن خواجہ سعد رفیق کا پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے سے نقصان پہنچے اور ایک بار پھر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ چیئرمین مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف ریاض فتیانہ نے خواجہ سعد رفیق کا پروڈکشن آرڈر جاری کیا جو سپیکر آفس میں روک لیا گیا۔ سپیکر کے اس اقدام کیخلاف سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر خواجہ سعد رفیق کا پروڈکشن آرڈر جاری نہ کیا گیا تو قومی اسمبلی کے اجلاس کی کاروائی چلانا ممکن نہیں رہے گا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی پہلی نشست میں وزیراعظم عمران خان ایوان میں آئے اور خطاب کیا تا ہم اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے نہیں ملے ۔ اسی طرح پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کو دی گئی بریفنگ میں آصف علی زرداری کراچی اور میاں شہباز شریف خاص طور پر شرکت کیلئے اسلام آباد آئے لیکن وزیراعظم اس اہم بریفنگ میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ پارلیمانی لیڈرز کے اجلاس سے وزیراعظم غیر حاضر تھے ہم کوئی اعتراض تو نہیں کررہے تاہم سوالیہ نشان ہے ؟ اُنہیں کو پارلیمنٹ کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ پارلیمنٹ اہم جگہ ہے ،ہمارا گلہ شکوہ ہے ۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے زور دار تقریر کی میاں شہباز شریف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار شعروں کے ذریعے کیا۔ وفاقی حکومت نے اپوزیشن کے مطالبے پر اگلے روز ہی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں بھارتی جارحیت کے خلاف ایک جاندار قرار داد منظور کی گئی جس میں اس تاثر کو اجاگر کیا گیا کہ حکومت اور اپوزیشن بھارت کی جارحیت کیخلاف پوری قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف) نے ممکنہ پاک بھارت جنگ کی صورت میں 10ہزار رضا کار سرحد پر بھجوانے کا اعلان کردیا۔ پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن بلا تفریق قومی اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں کا متحدہ ہونا نیک شگون ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن کا ملکی مسلح افواج کی پشت پر کھڑے ہونے کے اعلان نے جہاں انکے حوصلے کو بڑھایا ہے وہاں بھارتی جارحیت نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پائے جانے والی کشیدگی کو پس منظر میں ڈال دیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھنے کا جو موقع ملا ہے اس سے حکومت کو فائدہ اٹھانا چاہیے اور بلا تاخیر تمام سیاسی جماعتوں کو وزیراعظم ہائوس میں مدعو کرنا چاہیے اور انکی مشاورت سے جنگی حکمت عملی کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب سیاسی اختلافات سے اوپر اٹھ کرسوچا جائے سید فخر امام جنہیں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے، نے زوردار تقریر کی۔ وہ دھیمے انداز میں گفتگو کرنے کی شہرت رکھتے ہیں لیکن انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ عزت سے جینا ہے یا نہیں‘‘ ۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کے مطالبے کے بعد وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان وزیراعظم آفس گئے اور وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف کو اپوزیشن کے اس مطالبے سے آگاہ گیا جس سے وزیر اعظم نے اتفاق کیا جس کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی بشمول متحدہ مجلس عمل نے دفاعی تعاون کیلئے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کا اعلان کر دیا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اور قومی اسمبلی میں بھارت کو او آئی سی میں مدعو کرنے پر اجلاس کے بائیکاٹ کی تجویز دیدی گئی جسے حکومت نے تسلیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیر خارجہ نے او آئی سی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ بھارتی جارحیت کیخلاف قرار داد متفقہ طور پر منظور بھی کر لی گئی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی جارحیت کیخلاف قرارداد پیش کی۔قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے پلوامہ حملے کی تحقیقات کی پیشکش کی تھی، بھارت نے پلوامہ حملے کے بعد پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگائے۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے واضح کردیا تھا کہ جارحیت کی صورت میں جواب دیا جائیگا، پاک فضائیہ نے بروقت کارروائی کرکے بھارت کی جارحیت ناکام بنائی، یہ ایوان پاک فضائیہ کی بروقت اور مؤثر کارروائی پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے، ایوان قومی سلامتی کمیٹی کے اپنے وقت اور پسند کے مقام پر جواب سے متعلق بیان کی تائید کرتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو احتساب عدالت سے دی گئی سزا کی معطلی اور طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت مسترد کئے جانے والے فیصلہ پر مسلم لیگی حلقوں کی جانب سے مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے تاہم محتاط انداز میں ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے اور اس فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عدالت کے فیصلے سے مایوسی ہوئی، پانچ طبی بورڈز نے نوازشریف کی بیماری کی تشخیص کی اور فوری علاج کی سفارش کی۔انہوں نے کہا کہ پوری امید تھی کہ ہائیکورٹ علاج کیلئے ضمانت کی درخواست قبول کریگی، ہمیشہ عدالتوں کے فیصلوں کا احترام کیا ہے اور اس فیصلے کا بھی احترام کرتے ہیں، نواز شریف کا علاج پاکستان اور باہر بھی ہوسکتاہے لیکن جیل میں نہیں ہوسکتا۔ مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما نے نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میاں نواز شریف ڈیل کرکے بیرون ملک جائینگے اور نہ ہی وہ اس موضوع پر کسی سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف جرأت و استقامت سے جیل کاٹ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف جیل میں مسلم لیگی کارکنوں کیلئے ’’سورس آف پاور‘‘ کے طور پر رہنا چاہتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپرٹنڈنٹ جیل کے پاس اختیار ہے کہ بیمار قیدی کو ہسپتال منتقل کرے ، نواز شریف کے کیس میں بھی قانون پر عمل کرتے ہوئے جب ضرورت پڑی ہسپتال منتقل کرنے کی ،عدالتی نظیریں موجود ہیں کہ اگر قیدی کا جیل یا ہسپتال میں علاج ہو رہا ہو تو وہ ضمانت کا حق دار نہیں ،تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف نے جب بھی خرابی صحت کی شکایت کی انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا ،میڈیکل رپورٹس کے مطابق نواز شریف کو پاکستان میں دستیاب بہترین طبی سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں ، عدالت میں پیش کئے گئے حقائق کے مطابق نواز شریف کا کیس غیر معمولی نوعیت کا نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے میاں نواز شریف کی درخواست ضمانت مسترد ہونے کے فیصلے کو درست قرار دیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کسی بھی صورت ڈیل نہیں کرینگے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ فیصلے اچھے لگیں یا برے انہیں قبول کرنا پڑتا ہے، فیصلے کرنا عدالتوں کا اختیار ہے اور اس کو تسلیم کرنا عوام کا اختیار ہے، پاکستان آئین کے تحت چل رہا ہے اور یہ عدالتیں اس آئین نے تشکیل دی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما سنیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ انصاف میں دیر ہو سکتی ہے اندھیر نہیں،اگر ڈیل یا ڈھیل دی جا رہی ہے تو حکومت دوسرے فریق کا نام بتائے،نواز شریف مشرف نہیں، مشرف کے باہر جانے پر مخالفین کی زبانیں بند کیوں ہو جاتی ہیں، نواز شریف اس دھرتی کا بیٹا ہے، یہیں رہے گا اور سیاست کریگا۔ مریم نواز نے معنی خیز انداز میں شاکر شجا آبادی کا درج ذیل شعر ٹویٹ کیا ہے ’’دعا شاکر تو منگی رکھ، دعا جانے خدا جانے‘‘ بہرحال نواز شریف کے سیاسی مخالفین کی جانب سے کی جانب سے ’’ڈیل ،ڈھیل یا این آر او‘‘ کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے، میاں نواز شریف اپنے سیاسی مستقبل پر کوئی کمپرومائز کرنے کیلئے تیار نہیں۔ بالآخر مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ میں حملے کی آر لیکر بھارت نے پاکستان کیخلاف جارحیت کا ارتکاب کر دیا ہے۔ اسے حسن اتفاق کہیں یا کچھ اور، بدھ کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس منعقد ہو رہے تھے۔ دونوں ایوانوں کی کاروائی روک کر بھارتی جارحیت کیخلاف احتجاج کیا گیا۔ دونوں اجلاسوں میں حکومت اور اپوزیشن بھارتی جارحیت کیخلاف یک آواز ہو کر وطنِ عزیز کے دفاع میں اپنا کردار ادا کرنے کے عزم کے اعادہ کیا ہے۔

محمد نواز رضا--- مارگلہ کے دامن میں

ای پیپر دی نیشن