خالد بن سعید بن العاص نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک ایسی آگ کے کنارے پر کھڑے ہوئے ہیں،جس کی لمبائی چوڑائی خدا ہی بہتر جانتا ہے ،اوران کا باپ انھیں اس آگ میں دھکیل رہا ہے جبکہ ھادی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انھیںکمر سے اس طرح تھامے ہوئے ہیں کہ وہ آگ میں نہ گر جائیں۔وہ گھبراکہ اٹھے ،کہنے لگے ،قسم بخدایہ خواب بالکل سچا ہے۔گھر سے نکلے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی انھیں اپنا خواب سنا یا ۔انھوںنے فرمایا:اللہ کی طرف سے تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیاگیا ہے۔یہ اللہ کے رسول ہیں ، تم ان کا اتباع کرو،اسلام میں داخل ہوجائو، اسلام ہی تمہیں آگ سے بچائے گا، جبکہ تمہاراباپ ضرور آگ میں جائے گا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس وقت محلہ اجیاد میں تشریف فرماتھے۔خالد آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا آپ کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟ارشادہوا، ایک اللہ پر ایمان کی،جس کا کوئی شریک نہیں ہے اوریہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )اس کے بندے اوررسول ہیں اور ان پتھروں کی عبادت چھوڑ دو، جو نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں ،نہ نفع ونقصان کی قدرت رکھتے ہیںاور نہ یہ جانتے ہیں کہ کون ان کی پوجا کرتا ہے اورکون نہیں کرتا۔خالد نے فوراً کلمہ شہادت پڑھ لیا،ان کے اسلام لانے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی مسرت ہوئی۔
قبول اسلام کے بعد خالد رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے غائب ہوگئے لیکن ان کے باپ کو ان کے ایمان لانے کی خبر ہوگئی۔اس نے ان کی تلاش میں آدمی بھیجے ، جو انھیں ڈھونڈکر اس کے پاس لے آئے۔ باپ نے انھیں خوپ سرزنش کی، اپنے کوڑے سے اس قدر پٹائی کی کہ وہ ان کے سرپر ٹوٹ گیا۔پھر کہنے لگا، تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کے پیچھے لگ گئے ہو۔حالانکہ تمہیںمعلوم ہے کہ وہ اپنی قوم کی مخالفت کررہے ہیں اورہمارے خدائوں اورآبا واجداد میں عیب نکال رہے ہیں۔ حضرت خالد نے کہا ،اللہ کی قسم ! وہ سچ کہتے ہیں اور میںنے ان کی اتباع کرلی ہے۔اس پر ان کے باپ کو بڑا غصہ آیا ،ان کو بہت برا بھلا کہا ، گالیاں دیں اورکہا، جہاں تیرا دل چاہے چلا جا ،میں تیرا کھانا پینا بند کردوں گا،انھوںنے فرمایا اگرتم بندکردو گے تو اللہ تعالیٰ مجھے اتنی روزی ضرور دے گا کہ جس سے میں گزارا کرلوں گا۔اس پر باپ نے انھیںگھر سے نکال دیا،اور ان کے بھائیوں سے کہا کہ ان سے بول چال بند کردو،لیکن خوش بختی دیکھیے کہ حضور نے انھیں اپنے پاس رکھ لیا،اور آپ ان کا ہر طرح سے خیال فرماتے ۔ان کا باپ سعید بن عاص بیمار ہوا تو قسم اٹھا کر کہنے لگا اس بیماری سے شفایاب ہوکر ابن ابی کبیشہ (یعنی حضور علیہ السلام )کے خداکی مکہ میں عبادت نہیں ہونے دوں گا۔ اس پر خالد نے دعامانگی ،اے اللہ اسے بیماری سے شفاء ہی نہ دے۔چنانچہ وہ اسی بیماری میں مرگیا۔ (حاکم،ابن سعد)
داستانِ ایمان
Mar 03, 2019