عمران عالمی امن کے بھی سفیر

جب بھارت کی 26 فروری بیس سو انیس کی جارحیت کے بعد پاکستان میں ہے اگلے روز اینٹ کا جواب پتھر سے دیا تو بھارت آگ بگولا تھا اس کی طرف سے دھمکیوں کا سلسلہ تو تو پہلے سے ہی جاری تھا اور پاکستان پر حملے کا ماحول بھی اس نے بنا دیا تھا اس کے رویے کی جارحیت سے پلوامہ ڈرامہ کی چنگاری جنگ کا شعلہ جوالہ دکھ رہی تھی ایسے میں عمران خان نے بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کر بات کی تو جنگ کے خطرات ٹل گئے گئے عمران خان نے خود کو کشمیر کا سفیر کہا تھا اور ایسا انہوں نے بن کے بھی دکھا دیا اس وقت جنگ کے سیاہ بادل گہرے ہوچکے تھے جو وزیراعظم عمران خان کی بہترین سفارتی اور خارجہ پالیسی کے باعث چھٹ گئے یے عمران خان کے لیے نوبل پرائز کی باتیں ہونے لگیں انہوں نے اس میں کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی۔عمران خان نے خود کو عالمی امن کا سفیر بھی ثابت کردیا ہے امریکہ ایران جنگ حقیقت بن چکی تھی پاکستان کی زبردست سفارتکاری کے باعث یہ جنگ بھی ٹل گئی اور آج امریکہ طالبان مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد امریکہ افغانستان سے انخلا پر آمادہ ہو چکا ہے۔طالبان بھی افغانستان میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر پر دوحا میں امریکہ کے ساتھ معاہدے کی رو سے تیار ہوچکے ہیں یہ آگ اور پانی کے ملاپ والی بات تھی عمران خان نے یہ بھی کردکھایا ان کے لیے کوئی نوبل پرائز کی بات کرے یا نہ کرے عمران خان نے خود کو کشمیر کے بعد عالمی امن کا سفیر بھی ثابت کر دیا ہے۔وزیر اعظم عمران خان کا دورہ قطر بھی دیگر دوروں کی طرح کامیاب رہا۔ ایسے دوروں سے پاکستان کی ترقی خوشحالی کے شگوفے کھل رہے اور عوامی مسرتوں کی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی پوری توجہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری پر ہے۔ قطر کے دورے کے دوران سرمایہ کاری اور توانائی کے شعبے میں تعاون پر اتفاق کے ساتھ سیاحت کی مفاہمتی یادداشتوں پر بھی دستخط ہوئے۔ سیاحت کے حوالے سے پاکستان لاثانی ملک ہے۔ پاک فوج نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر پاکستان سے ٹیررزم کا خاتمہ کر کے پاکستان میں ٹورزم کو فروغ دیا۔ اب یہ اصطلاح معروف ہو رہی ہے۔TERRORISM TO TOURISM۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے سے قبل پاکستان میں ڈرون حملے ہوتے تھے۔ انکے اس حوالے سے دوٹوک مؤقف کے بعد ڈرون حملوں کا سلسلہ رُک گیاہے۔ پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے غیر محفوظ ملک قرار دیا جاتا تھا۔ کہا جاتا تھا ایٹمی ہتھیار شدت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔مگر آج صورتِ حال یکسر بدل چکی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پرنہیں اب بھارت کے ایٹمی پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کی بات ہو رہی ہے۔عمران خان نے بڑی مہارت سے یہ رُخ بھارت کی طرف موڑ دیا ہے۔ عمران خان ہی کی حکمتِ عملی اور بہترین سفارتکاری کے باعث بھارت دنیا سے منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔صورتِحال پاکستان کے حق میں مزید بہتر ہو سکتی تھی بشرطیکہ اپوزیشن سیاسی مفادات سے بالا ہو کر عمران خان کے ہاتھ مضبوط کرتی۔ حکومت نے کئی بحرانوں پر قابو پایا۔ اب اس کی پوری توجہ مہنگائی کے خاتمے پر ہے۔ بجلی، گیس کی قیمتیں نہ بڑھانے کا عزم و ارادہ کیا گیا ہے اورچند روز میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی جا رہی ہے۔ جس سے عوامی حمایت کے ریلے کا رُخ حکومت کی طرف ہو گا جو کچھ قوتوں کو پسند نہیں۔
عمران خان کے قطر کے دورے سے قبل ترک صدر طیب اردوان اور سیکرٹر ی جنرل اقومِ متحدہ انتوینوگوتیرس کے پاکستان کے دورے بھی پاکستان کے نکتہ نظر سے انتہا ئی کامیاب رہے۔ کشمیر کاز پر ان دونوں پاکستان کے مؤقف کی مکمل تائید کی۔ طیب اردوان نے اس حد تک کہہ دیا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان کامسئلہ ہے تو ترکی کا بھی پاکستان ہی کی طرح مسئلہ ہے۔اس پر بھارت آگ بگولہ ہوا۔ ترک وزیر اعظم کے بیان پر بھارت نے جس طرح واویلا کیا اسی طرح اس نے ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران پاکستان کے ساتھ تعلقات اور عمران خان سے دوستی کے جلسہ عام میں اعلان پر بھی شدید تکلیف میں نظر آیا۔ ٹرمپ جب یہ باتیں کر رہے تھے تو مودی کاچہرہ شرمندگی سے مزید سیاہ ہو گیا جبکہ بھارتی میڈیا میں کہرام کی کیفیت تھی۔ ٹرمپ افغان مسئلہ بھی امریکیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے حل کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان کے تعاون کر بغیر ممکن نہیں، پاکستان کی کاوش سے امریکہ طالبان امن معاہدہ طے پاچکا۔ آج امریکہ کو پاکستان کی افغانستان وار کی دلدل سے نکلنے کے لیے اشد ضرورت ہے۔

محمد یاسین وٹو....گردش افلاک

ای پیپر دی نیشن