پنجابی وسیب!

Mar 03, 2021

ابرار نمدیم

واٹس ایپ پر ملنے والی ویڈیو دیکھ کرپہلی نظر میں مجھے لگا یہ بالی وڈ کی کسی پنجابی فلم کے گانے کاسین ہے جس میں آگ کے الائو کے گرد چند نوجوان لڑکیاں اور لڑکے ڈانس کر رہے تھے لیکن اس وقت مجھے شدید حیرانی ہوئی جب یہ پتہ چلا کہ دراصل یہ منظر پنجاب کے ایک غیرت مند اور دلیر ہیرو دُلا بھٹی شہید کی یاد میں منائے جانے والے تہوار’’لوہڑی‘‘ کا ہے ۔ اسی طرح کا ایک اور افسوسناک منظر مجھے مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر پنجاب اسمبلی کے سامنے چئیرنگ کراس پر پنجابی بولی کے حق میں نکالی جانے والی ریلی میں دیکھنے کو ملا جہاں ڈھول کی تھاپ پر مردوں کے ساتھ چند خواتین بھی ناچ رہی تھیں۔جو لوگ پنجابی تہذیب و ثقافت سے واقف ہیں وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ رشتوں کے احترام کے ساتھ شرم و حیا،غیرت اور جی داری جیسی شاندار اقدار کے حامل پنجابی معاشرے میںکسی قسم کی بے شرمی کی قطعاََ گنجائش نہیں ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ آج ہم دانستہ یا نادانستہ اپنی زبان اور ثقافت سے دور ہورہے ہیں خاص طور پر ہماری نئی نسل بڑی تیزی سے ا پنی بولی اور ثقافت کو بھولتی جارہی ہے۔ہماری قدریں، ہماری رسمیں اورہمارے رواج کتنے سہانے اور شاندار تھے۔ہمارے ڈھولے،ٹپے، ماہیے،گیتوں اور بولیوں میں کیسی شیرینی تھی،ہمارے جوان کتنے جی دار،بہادر،سورمے اور غیرت والے ہوتے تھے اورہماری بہو بیٹیاں کتنی سلیقہ شعار،وفادار اور شرم و حیا والی تھیں۔کسان کیسے صبح سویرے کھیتی باڑی کے لئے کھیتوں کو جاتے تھے اور اُن کے پیچھے دودھ رڑک کر تازہ مکھن سے چوپڑی تندور کی روٹیاں،اچار اور لسی کابھانڈا سر پر اٹھائے سرسوں کے پھولوں سے سجی ہری بھری فصلوں سے گزرتی مٹیاریں کیا بہار کا منظر پیش کرتی تھی۔ گڈے گڈیوںکے ساتھ کھیلتی اور ٹاہلی کے درخت پرپینگیں جھولتی لڑکیوں کے معصوم قہقہے،شوخیاں اور شرارتیں کتنی حسین اور زندگی سے بھر پور ہوتی تھیں۔پیروں میں تلے والے کھسے اور لاچے کرتے کے ساتھ سروں پر اُونچے شملے والی پگ پہن کرگھبروکس شان سے چلتے تھے۔تپتی دوپہروں میں بوڑھ،ٹاہلی اوردھریک کی چھائوں میں کتنا سُکھ ملتا تھا۔باغوں میں کوکنے والی کوئل کی آواز سننے والوں کو کیسے مست کر تی تھی۔ شام سویرے چونترے یا پسار میں چولہے کے پاس جب سارا ٹبراکٹھے بیٹھ کر کھاتا پیتا تھا تو گھر کے سب افراد میں کتنا پیار ،محبت اور سلوک بڑھتا تھا۔رات کھلے آسمان تلے تاروں کی چھائوں میں سوتے وقت جنوں،پریوں اور شہزادے شہزادیوں کی کہانیاں سننے کا کیا سواد تھا۔شادی بیاہ پر پر گھبرو جوانوں اور مٹیاروں کے الگ الگ بھنگڑے اور گِدے کیا رنگ جماتے تھے۔گند م کی کٹائی کے بعد لگنے والے میلوں ٹھلیوں میں جوان کبڈی،کشتی اور نیزہ بازی کے میدان میں کیسے اپنی مہارت اور زور دکھاتے تھے۔سہیلوں کے ساتھ میلے سے لڑکیاں بالیاں ہاتھوں میں رنگ برنگیاں چوڑیاں چڑھا کر کیسے ایک دوسری کو دکھا کر خوش ہوتی تھیں۔ گائوں والے کس طرح مل جل کر بیٹیوں کی ڈولیاں اُٹھاتے ،باراتیں کیسی آتیں اوراُن کی ٹہل سیوا کیسے کی جاتی تھی۔ بزرگوں کا کیا رعب اور دبدبہ ہوتا تھا اورنوجوان اُن کی بات کا کیسے مان رکھتے تھے۔ترنجنوں میں بیٹھی بڑی بوڑھیاں کیسے باتوں باتوں میں بچیوں کو زندگی گزارنے کا ڈھنگ اور طریقہ سلیقہ سکھاتی تھیں۔شام کو جب روہی سے مڑ کر گھروں کو واپس آتے جانوروں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں اور گائوں میں آٹا پیسنے والی چکی کی ’’ٹُھو ٹُھو‘‘ کی آواز کانوں میں پڑتی تو وہ کیسا سرور دیتی تھی۔چوپالوں اور بیٹھکوں میں ہیر رانجھے اور سیف الملوک کی داستانیں گا کر سنانے والے کیا سماں باندھتے تھے۔رب گواہ ہے ہمارے پاس نئی نسل کو بتانے کے لئے بہت کچھ تھا مگر افسوس ہم نے اسے کچھ بتایا ہی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نئی نسل جب یہ کہتی ہے کہ انہیں سر پرچُنی لیتے شرم آتی ہے یامکھن اور ساگ کے ساتھ مکئی کی روٹی کی بجائے انہیں فاسٹ فوڈ اچھا لگتا ہے تو اس میں اُن کا کوئی قصور نہیںہے۔آج ہماری نئی نسل اپنے بڑوں کے رہن سہن کو اپنانے سے انکاری ہے تو اس میں غلطی ان کی نہیں بھول کہیں ہم سے ہی ہوئی ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ہماری سب سے بڑی بھول یہ ہے کہ ہم یہ سوچ کر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں کہ ساری ذمہ داری صرف حکومت کی ہے۔یقینا اس حوالے سے حکومتوں کا کردار بھی ہے لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہماری ثقافت اور بولی کا سودا اتنا سستا ہے کہ ہم سال میں کسی مخصوص تہوار یا دن پر ایک ادھ سیمینار کر کے یا ریلی نکال کر یہ سمجھ لیں کہ ہم نے اپنی تہذیب و ثقافت اور بولی کی بقا کے لئے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ 

مزیدخبریں