سینٹ الیکشن……جیت کس کی؟

سینٹ میں اقتدار کا ہما آج کس کے سر بیٹھتا ہے ، جیت کس کا نصیب بنتی ہے ، ہار سے کس کو دوچار ہونا پڑتا ہے ، پوری قوم ہی نہیں ، بیرون ملک بھی ’’اپنوں‘‘ اور ’’پرائیوں‘‘ کو نتائج کا بڑی شدت سے انتظار ہے۔ سب کی نظریں اسلام آباد کی سیٹ پر ہیں، اس سیٹ پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور حکومتی امیدوار وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ  مدمقابل نہ ہوتے تو مقابلہ دلچسپ نہ ہوتا گویا کہ 
راہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا
شاید اس سیٹ کی جیت یقینی بنانے کے لیے ہی صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا تھا جس کو بعدازاں سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ اس دوران پنجاب میں 11 سینیٹرز کے بلامقابلہ انتخاب نے سیاست کے ’’تپتے صحرائ‘‘ کو افہام و تفہیم کی ’’پھوہار‘‘ سے قدرے پائوں رکھنے کے قابل بنا دیا ہے جس میں چودھری پرویز الٰہی (سپیکر پنجاب اسمبلی) کا کردار قابل ستائش رہا ہے جس کو حکومت اور اپوزیشن دونوںنے سراہا ہے۔ صدارتی آرڈیننس پر کئی دنوں کی قانونی و آئینی بحث کے بعد نتیجہ توقعات کے عین مطابق ہی آیا ، حالانکہ ’’یار لوگوں‘‘ نے بہت زور لگایا ، دلائل و براہین کے بھی انبار لگا دئیے ۔ کہیں کہیں نوٹوں کے ڈھیروں والی ویڈیو دکھا کر ’’ماحول‘‘ کو جذباتی کرنے کی بھی کوشش کی گئی ، 1973ء میں آئین سازی کے وقت کے سیاسی حالات اور تازہ ترین صورتحال کاتقابل کرکے ’’نظریات ضروریہ‘‘ پر بھی مدلل مکالمے ہوئے۔ سپریم کورٹ میں 19 سماعتیں ہوئیں۔ بہرحال عدالت عظمیٰ نے اس پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’’سینٹ الیکشن آئین اور قانون کے تحت ہوتا ہے ، الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کو ایماندارانہ ، صاف ، شفاف اور قانون کے مطابق بنائے جو کرپٹ پریکٹسز سے پاک ہوں ‘‘ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم ، جسٹس عمر عطاء بندیال ، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ ’’صدر مملکت نے جس معاملے پررائے طلب کی ہے وہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت قابل غور ہی نہیں۔‘‘ تاہم فیصلے پر حکومت اور اپوزیشن دونوں حسب سابق پھولے نہیں سما رہے اور عدالت عظمیٰ کی رائے کو اپنی کامیابی کا ’’پیش خیمہ‘‘ سمجھ رہے ہیں۔ البتہ آئینی و قانونی ماہرین نے بھی بڑی محتاط اور نپی تلی رائے کا اظہار کیا ہے ، نفسیاتی تسکین اور قلبی اطمینان کے مطابق اپنی اپنی تعبیر کی ہے۔ خیر میدان سج چکا ہے ، سینٹ کی 37 نشستوں پرانتخابات آج ہو رہے ہیں، 78 امیدوارہیں، تاہم دلچسپ اورکانٹے دارمقابلہ اسلام آباد کی سیٹ پر ہے ، دونوں طرف سے کامیابی کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کو میدان میں اتارنے کو کئی لوگ ’’اک زرداری سب پر بھاری‘‘ کی سیاسی حکمت عملی کا مظہر قرار دے رہے ہیں، بہرحال دوسری طرف کے امیدوار (عبدالحفیظ شیخ) کی جیت یقینی بنانے کے لئے تمام ذرائع استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔ پنجابی کی مثال ’’گھوڑے اپنیاں شرماں نوں ای دوڑ دے نیں۔‘‘ کے مصداق عبدالحفیظ شیخ کی کامیابی کے لئے ’’گھوڑے‘‘ خوب دوڑ رہے ہیں۔ اعصابی جنگ جاری ہے، پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں یوسف رضا گیلانی جبکہ حکومت اور اتحادی عبدالحفیظ شیخ کو جتانے کے لئے کوشاں ہیں ، ایسی صورتحال میں میڈیا اور عوام بھی لاتعلق نہیں رہے، اپنی اپنی پسند کے امیدوار کے لئے نیک تمنائیں ہیں۔ عوام کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی جیت کے ’’ثمرات‘‘ تو شاید سینٹ کے پورے 6 سالہ دورانیے میں عام آدمی تک نہ پہنچنے پائیں جبکہ عبدالحفیظ شیخ کے جیتنے یا ہارنے دونوں صورتوں میں ’’ثمرات‘‘ عام دمی تک ضرور پہنچیں گے۔ کیونکہ ملکی خزانے کی ’’چابی‘‘ تو دونوں صورتوں میں ان کے پاس رہے گی ، ویسے بھی انہوں نے گزشتہ روز کہا تھا کہ ’’ہمارا خاندان 70 سال سے سیاست اور پبلک سروس میں ہے ، میرے نانا وزیر اعلیٰ رہے ، خوشخبری دینا چاہتا ہوںکہ تمام جماعتیں اکٹھی ہیں۔‘‘ بہرحال یوسف رضا گیلانی جیتیں یا عبدالحفیظ شیخ ، دونوں نے پہلے سے طے شدہ ایجنڈا پر ہی چلنا ہے۔ ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں ، پالیسی سازوں اور پالیسی ساز اداروں کے سربراہ ’’من مانیاں‘‘ نہیںکر سکتے بلکہ ان کے لئے پہلے سے ہی ’’رہنما اصول‘‘ متعین ہوتے ہیں، اس سے ایک انچ بھی وہ دائیں بائیں نہیں ہٹتے ، بہرحال کوئی بھی جیتے عوام کا مقدر نہیں بدلے گا۔ 
میں اداس رستہ ہوں شام کا ، تیری آہٹوں کی تلاش ہے 
یہ ستارے ہیں سب بجھے بجھے ، مجھے جگنوئوں کی تلاش ہے 
ذرا سیر کرنے کو آئے ہیں ، ہمیں اور کچھ نہیں چاہئے 
وہ ہیں ڈور کانٹے لیے ہوئے جنہیں مچھلیوںکی تلاش ہے 

ای پیپر دی نیشن