صحافت میں ایک ہمہ جہت شخصیت 

Mar 03, 2021

ڈاکٹر فوزیہ تبسم

مجھے یاد ہے میں نے 1997 میں جب آرٹیکل لکھنا شروع کیے تو میں اکثر اپنے آرٹیکل خود مجیدنظامی صاحب کو دینے نوائے وقت اُن کے دفتر چلی جاتی۔ اُنہیں سے ملتی اپنا آرٹیکل دیتی اور واپس چلی جاتی  اُنہی دنوں نوائے وقت میں میرے دادا صوفی تبسم کی برسی پر سعید آسی صاحب نے اُن پر بہت خوبصورت کالم تحریر کیا۔ اُن کی اس خوبصورت تحریر پر میں اپنا فرض سمجھتی تھی کہ اُن کا شکریہ ادا کروں۔ اُسی وقت میں نے نوائے وقت کے دفتر میں فون کیا اور اُن کا شکریہ ادا کیا یوں اُن سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوگیا پھر کبھی ایسا بھی ہوا کہ میں اپنا آرٹیکل مجید نظامی صاحب کو دینے جاتی یا صوفی تبسم اکیڈیمی کے حوالے کسی پروگرام کا دعوت نامہ دینے جاتی تو وہاں سعید آسی صاحب سے بھی ملاقات ہوجاتی۔ میں سعید آسی صاحب کی شخصیت سے بہت متاثر تھی وہ انتہائی سادہ مزاج کے سُچے کھرے صحافی ہیں اور اپنے سچے خیالات کی روشنی میں مسائل کو جانچتے ہیں اور اُن کا حل بھی بتاتے ہیں۔ صحافت میں اُن کا بہت بڑا نام اور کام ہے۔ کئی برسوں سے وہ ملک اور عوام کی خدمت کا اہم فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اُن کے کالموں کی کتاب ’’تیری بکل دے وچ چور‘‘ جو 415 صفحات اور 118کالموں پر مشتمل ہے منظرعام پر آئی تو اُس نے ہم سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ اُن کے کالموں میں مختلف موضوعات پر اپنی دلچسپ تحریریں قارئین کی نذر کی ہیں۔ اُنہوں نے کالموں میں اہم مسائل کا حل پیچیدہ معاملات کی توضیح اور تازہ ترین خبروں پر نہایت منفرد انداز سے روشنی ڈالی ہے۔ سعید آسی کی تحریریں عام تحریروں سے ہمیشہ منفرد ہوتی ہیں۔ سعید آسی کی کالم نگاری میں ادبی حسن بھی برقرار رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کے کالم کبھی باسی نہیں ہوتے۔ اُنہوں نے اس کتاب کا انتساب بھی مجیدنظامی صاحب کے نام کیا ہے۔ اس خوبصورت کتاب کے لیے وہ داد کے مستحق ہیں۔ کسی شاعر نے کہا تھا کہ شاعری کا مجھے سب سے بڑا صلہ یہ ملا ہے کہ مجھے اپنے ماحول سے حسین و جمیل اور پاکیزہ چیزوں کو تلاش کرنے کی عادت پڑگئی ہے۔ سعید آسی کی اُردو شاعری کا انتخاب ’’تیرے دُکھ بھی میرے ہیں‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے حسین و جمیل اور پاکیزہ چیزوں ہی کو اپنا موضوعِ سخن بنایا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو 
راہ میں اپنے کھڑی دیوار بھی ہے 
اور جانا ہم نے اُس کے پار بھی ہے 
اس شعر میں ہم اُنہیں پوری توانائیوں کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔ حقیقتاً شاعری میرے نزدیک حواس کی بیداری کا ترغیبی عمل ہے۔ شاعر زندگی کے رشتوں انسانی معاشرت و تہذیب کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور اسی لیے ان رویوں کو سمیٹ کر اپنے ساتھ ساتھ رکھتا چلا جاتا ہے۔ سعید آسی کی شاعری میں شاعری کا ایک ایسا جذبہ ہے جسے الہام سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ شعر ملاحظہ ہو
آنکھوں سے آنسوئوں کا نکلنا نہیں فضول
یہ تو میرے جلے ہوئے دل کی بھڑاس ہے 
جناب سعید آسی کی اُردو اور پنجابی شاعری پر مشتمل نئی کتاب ’’کلامِ سعید‘‘ بھی منظرعام پر آچکی ہے اور اُن کی دونوں زبانوں اُردو اور پنجابی میں شاعری پائے کی ہے۔ اُن کا کلام پڑھ کر آپ کو خوشگوار حیرت ہوگی کہ وہ صحافت کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے اشعار میں لفظوں کو اعتبار بخشا ہے۔ 
گر ہے جذبہ کمال کرنے کا 
سوچ بھی تو اُجال رکھی ہے 
مضمحل ہوں قویٰ نہیں آسی
ہم نے ہمت فعال رکھی ہے 
؎پکڑ تو لوں میں کسی بے وفا کے دامن کو 
پر اس سے بھی تو مداوائے غم نہیں ہوتا
ملا ہے درد جو اس سنگدل زمانے میں
کسی بھی حیلے بہانے سے کم نہیں ہوتا
سعید آسی کے لہجہ میں نفاست اور بلا کا تہذیبی رچائو ہے وہ کسی سجاوٹ کے بغیر دوٹوک انداز میں بات کرتے ہیں جو ان کے اسلوب کی صورت میں غزل کو ایک نیا رجحان اور نئی صورتِ حال سے ہمکنار کرتا ہے ۔
؎تیرے بغیر بھی تو یہ محفل جمی ہے خوب 
دیوانگی ہے رات ہے فرقت ہے یاس ہے 
آسی ہنوز تیرا مقدر نہیں کھلا
گو کامیابیوں کا ستارہ بھی پاس ہے 
سعید آسی استحصال کی بے جا لعنتوں کو ناپسند اور خودآرائی کے کھوکھلے پن سے گریز کرتے ہیں۔ زندگی کی رفاقتوں اور زندگی کے میلے میں یہ سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہیں۔ 
؎شور میں کچھ سنائی دیتا نہیں 
راستہ بھی دکھائی دیتا نہیں
درد سے چور ہے بدن سارا
دل ہے پھر بھی دُھائی دیتا نہیں
سعید آسی کے فن اور کمال میں تخلیقی سطح پر مقاصد پوشیدہ رہتے ہیں۔ وہ معاشی مسائل اور پیچیدگیوں اور تبدیلیوں کے امکانات سے واقف ہیں جس کا اظہار وہ اپنی شاعری میں جابجا کرتے نظر آتے ہیں۔ 
؎حبس ایسا ہے کہ دم گھٹتا نظر آتا ہے 
کر کے تدبیر کوئی تازہ ہوا لی جائے
کچھ تو اسباب ہیں اس بے سر و سامانی کے
اپنے احباب کی تاریخ کھنگالی جائے 
سعید آسی نے اپنی شاعری کی بنیاد مفروضات اور رَسمیات پر نہیں رکھی بلکہ وہ بعض اوقات سفاکانہ حد تک صداقت پرست اور حقیقت پسند ہوجاتے ہیں کہ وہ سامع یا قاری کے دل کی آواز معلوم ہونے لگتی ہے۔ وہ اس عہد کے منافقانہ رویوں اور سیاست چمکانے کے حربوں کو بھی بے نقاب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ 
؎قوم پر طاری ہوا ہے چھین لینے کا جنوں 
اور پاگل پن میں ہے سرکار الٰہی خیر ہو
قافلہ ہٹنے لگا ہے اپنی منزل سے پرے
بے خبر ہے قافلہ سالار الٰہی خیر ہو
ان اشعار سے اُن کی محبت جو وہ اپنے ملک اور قوم سے رکھتے ہیں صاف ظاہر ہوتی ہے۔ ان کی شاعری کی معنویت گردوپیش کے حالات کی نسبت سے واضع ہوتی ہے لیکن اس کے علاوہ حسن و عشق کی دھوپ چھائوں اور زندگی کی جمالیات بھی شاعری کی دنیا کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اس زاویے سے بھی سعید آسی کی شاعری ایک مختلف اور دلکش رنگ و آہنگ رکھتے ہیں۔ سعید آسی کے انسانی حقیقتوں کے حوالے ان اشعار کے ساتھ ہی اپنا قلم رکھتی ہوں۔ 
اپنے پائوں پہ آتا ہے نہ اپنے پہ پائوں جاتا ہے 
تیری کیا اوقات ہے بندے جس پہ تو اتراتا 

مزیدخبریں