پولیس کے ہاتھوں زبانی تشدد کا نشانہ بننے والے ایک بے گناہ نوجوان نے مجھے اپنی کتھا سناتے ہوئے کہا کہ دورانِ تفتیش میرے کیس کے تفتیش کار نے ایک بھی جملہ ماں ، بہن کی گالی کے بغیر نہیں بولا تھا اور میں اپنے ناکردہ گناہ کی ایسی بھیانک سزا پہ شرم سے زمین میں گڑا جارہا تھا ، میرا دل خون کے آنسو تو رو ہی رہا تھا لیکن میری آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے ، بعد میں مجھے علم ہوا کہ وہ افسر میرے کیس کا انچارج نہیں بلکہ ضمنی تحریر کرنے والا کرائے کا ریٹائرڈ پولیس والا تھا ۔ ایس ہی کئی داستانوں کے آپ بھی گواہ ہوں گے جن میں اکثر بے گناہ انسانوں نے اپنی سفید پوشی اور عزت کا بھرم رکھنے کے لئے بھاری رشوت بھی دی ہو گی۔
کمیونٹی پولیسینگ ایک ایسی اصطلاح ہے جس میں معاشرے کی مدد سے چھوٹے موٹے جرائم پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے افراد اور پولیس کے جوانوں کے درمیان اعتماد اور ہم آہنگی کی فضا پیدا کی جاتی ہے ۔ اس اصول کی مدد سے نہ صرف عوام کا پولیس پر اعتماد بڑھتا ہے بلکہ پولیس افسران کے مہذب روّیہ اور خوش اخلاق اطوار کی بنا پرپولیس سے نفرت اور جرائم کا قلع قمع ہوتا ہے۔ کمیونٹی پولیسنگ کا یہ جدید تصور 1829ء میں رابرٹ پیل نے پیش کیا لیکن اس اصطلاح کا استعمال بیسیویں صدی عیسوی میںجدید مغربی معاشرے نے اپنے نظام میںمحکمہ پولیس کی تنظیم ، ترتیب اور توسیع کی خاطر کیا۔ یاد رہے کہ سر رابرٹ پیل نے لندن میٹرو پولیٹن پولیس کی تشکیل کے لئے جو بنیادی اصول طے کئے وہ آج بھی قابل عمل ہیں لیکن تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمارے علم میں یہ بات آتی ہے کہ اسلامی معاشرے میں قانون کے نفاذ اور امن و امان کی قیام کی خاطر محکمہ پولیس کی ابتداء خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں ہوئی۔ اس بات سے سب لوگ بخوبی واقف ہیں کہ عوام، جرائم اور نظام انصاف کا آپس میں گہرا رشتہ ہوتا ہے، اس لیے حضرت عمر ؓ نے اس امر پر خصوصی توجہ دی اور ایک ایسا پرامن معاشرہ تشکیل دیا جس کی مثال نہیں ملتی۔اس دور میں پولیس کو ’احداث‘ اور پولیس آفیسر ’صاحب الاحداث‘کہلاتا تھا۔ اس محکمے کا سب سے بنیادی اصول ’احتساب‘تھا۔ شفاف احتساب کے حصول کے لئے آپ ؓنے حضرت محمد بن مسلمہؓ کو محکمہ احتساب کا انسپکٹر جنرل بنایا۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ نے تمام گورنروں یا والیانِ ریاست کے عمال پر نظر رکھتے تھے اور باقاعدہ ایک رپورٹ خلیفہ کو پیش کرتے تھے۔
حضرت عمر ؓ نے تفتیش کا ایک ایسا انداز متعارف کروایا جس میں تحقیق کے ساتھ ساتھ انصاف کی عمل داری تھی اور پولیس افسران بلا روک ٹوک اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے معاشرے میںجرائم کی بیخ کنی کرنے کے مجاز تھے۔ آپ ؓ نے رشوت کے خاتمے کے لئے افسران کی خاطر خواہ تنخواہوں کا انتظام و انصرام کا بھی کیا۔ ہم موجودہ پولیس نظام کی بات کریں تو یہ سب سے پہلے فرانس اور بعد میں انگلینڈ میں پولیس کا نظام تشکیل دیا گیا۔ جب اس نظام کا خاکہ بن رہا تھا تو یہ بات بھی زیر غور آئی کہ اسے سیاسی طور پر استعمال کیا جائے گا لیکن اس بنیادی ڈھانچے کی ناکامی کے بعد انہوں نے اس محکمہ کو سیاسی مداخلت سے پاک کر دیااور ان ملکوں میں آج کی غیر سیاسی پولیس وجود میں آئی، جو وزارت داخلہ کے نیچے خودمختار رہ کر کرمنل جسٹس سسٹم کے ساتھ عوام کی بھلائی اور دفاع کا کام کرتی ہے، نہ کہ سیاسی ہتھکنڈوں کیلیے استعمال ہورہی ہے ،چوں کہ پولیس کا بنیادی مشن جرائم کو روکنا اور امن قائم کرنا ہوتا ہے تاکہ ریاست کا نظم و نسق خوش اسلوبی کے ساتھ چلتا رہے-پولیس کی کامیابی اور اہلیت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ عوام اس کے اقدامات کی تعریف کریں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک محکمہ پولیس میں کوئی بھی ایسی اصلاح نہیں کی گئی جس کی بنا پر وہ عوام کی محبت اور ہمدردی حاصل کر سکے ۔ بجائے اس کے کہ ایسے اقدامات کئے جاتے جس کی وجہ سے نہ صرف پولیس کا مورال بلند ہوتا اور پولیس کی وردی کو فخر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ۔ اس محکمے کو ذاتی اور انتقامی مقاصد کے حصول کے لئے یو ں استعمال کیا گیا جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی ۔پولیس نظام کو دیکھا جائے تو یہ امر واضح ہے کہ پولیس کا بنیادی ڈھانچہ شفافیت اور احتساب پر مبنی ہونا چاہئے تاکہ پولیس کا ہرنوجوان نہ صرف اپنے افعال و اعمال سے بلکہ کردار سے اس محکمے کا نام روشن کر سکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ محکمہ انسداد رشوت ستانی میں سب سے زیادہ درخواستیں اس محکمے کیخلاف ہیں ۔ اگر کوئی افسر ایمانداری اور میرٹ سے کسی بھی اہلکار کو سزا کے طور پر بر طرف کرتا ہے تو کچھ ہی دنوں بعد سروس ٹریبونل کے ذریعے ، نوٹوں کی چمک سے یا سفارش کے زور پر کرپٹ اور راشی اہلکار پھر کسی نہ کسی اہم عہدے پر تعینات ہو جاتا ہے ۔ سابقہ سیاسی ادوار میں پولیس کے میٹرک پاس نوجوانوں کی تنخواہیں کسی ایم فل استاد کے برابر کر کے اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی کہ زیادہ تنخواہوں کی بنا پر اب اس محکمے میں رشوت ستانی کا گراف نیچے آئے گا لیکن ایک 50ہزا رتنخواہ لینے والا کانسٹیبل آج بھی 100روپے رشوت لینے سے باز نہیں آتا جس کی بنیادی وجہ محکمے میں مناسب جزا و سزا کا نہ ہونا ہے۔ کسی بھی افسر کی سب سے بڑی سزا کلوز ٹو لائن ہے جہاںوہ بیٹھ کر عیش و آرام کرتا ہے اور پھر مقامی افسر کے کسی ہرکارے کو معقول منشیانہ دے کر کسی تھانے میں تعینات ہو جاتا ہے ۔
کمیونٹی پولیسنگ
Mar 03, 2021