ایوان بالا کے نصف اراکین کا چنائو آج ہورہا ہے …گذشتہ تین چار دن میں کچھ اہم پیش رفت ہوئیں۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں سینٹ کے گیارہ اُمیدوار کھڑے کیے ہوئے ہیں۔ اس طرح وہ ایم کیو ایم پر دبائو ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ ان کی ایم کیو ایم کے وفد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے کہا گیا کہ اگر آپ اپنی نشستیں سو فیصد یقینی بنانا چاہتے ہیں تو مرکز میں یوسف رضا گیلانی کو نہ صرف ووٹ دیں جبکہ یہ بھی وعدہ کریں کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں بھی ہمارا ساتھ دیں گے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی شنید ہے کہ مکمل تعاون کی صورت میں انہیں صوبائی حکومت میں بھی حصہ دیا جائے گا۔ مزید مشاورت کی یقین دہانی پر یہ ملاقات ختم ہوئی۔ آصف علی زرداری سینٹ انتخابات میں اپنی جیت یقینی بنانے کی خاطر اسلام آباد میں ہیں۔ جہاں پی ڈی ایم جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقاتیں اور دیگر آزاد اراکین کے ساتھ میل ملاپ کے علاوہ پی ٹی آئی کے اراکین کی ,,حمایت،، پر حکمتِ عملی طے کی جائے گی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سرکاری موقف کے بر عکس ڈسکہ میں قومی اسمبلی کی سیٹ پر از سرِنو الیکشن کا حکم دے دیا۔ جسے اپوزیشن کی جیت اور حکومت کی سبکی تصور کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کے غیر لچکدار روئیے کو بھی اپوزیشن کی جیت سمجھا جا رہا ہے۔ حمزہ شہباز کو ضمانت مل چکی ہے اب وہ آزاد فضائوں میں گھوم پھر اور سیاست کر رہے ہیں۔ اسے بھی ’’ن‘‘ کی بڑی کامیابی سمجھا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے سینٹ کے اوپن بیلٹ بارے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ دے دیا ہے جس میںسینٹ کے انتخابات آئین اور قانون کے مطابق کرانے کا عندیہ دیا ہے۔ پنجاب میں سارے سینیٹرز بلا مقابلہ منتخب ہو چکے ہیں۔ اس کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟ اب ان خبروں کی تفصیل میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ متحدہ کے ساتھ پیپلز پارٹی والوں کی ضرور ملاقات ضرور ہوئی۔ اس ملاقات میں جاننا یہ مقصود تھا کہ پیپلز پارٹی چاہتی کیا ہے۔ جو چاہتی ہے اس کو حاصل کرنے کی حکمتِ عملی کیا ہے؟ قارئین یہ ذہن میں رکھیے گا کہ پیپلز پارٹی نے اس متحدہ سے ملاقات کی کہ جن کی پیدائش، پرورش، جوانی، موت اور پھر دوسرے نام سے نئی سیاست سب اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ہوئی۔ جن کے رہنما ایک ایک لفظ کی ادائیگی کسی کی اپروول سے کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں متحدہ خاموش تو رہ سکتی ہے، بیان بازی تو ہو سکتی ہے مگر کرے گی وہی جس کا حکم ملے گا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اُنہوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ ہی چلنے کا اعلان کیا ہے۔
جیسے کہا گیا ہے کہ آصف زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے، بھلے زرداری اسلام آباد آئیں، میل ملاقاتیں کریں یا خرید و فروخت کامیاب نہیں ہوں گے۔ تصور کریںکہ جو لوگ ’’گوڈے گوڈے‘‘ کرپشن میں پھنسے ہوں۔ جن کے بارے سب کو معلوم کہ وہ نیو کلیئر اثاثوں کا سودا کرنے لگے تھے اور تازہ ترین بیان میں محترم وائس ائیر چیف (ر) شاہد لطیف نے فرمایا کہ اس وقت کے صدر نے مجھے بلا کر کہا کہ F-17 طیاروں کا پراجیکٹ بند کر کے اس کا بجٹ ایوانِ صدر بھیج دو۔ جواب میں آپ کو ائیر چیف بنا دیا جائے گا۔ کیا ایسے لوگوں کو ہماری اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر سر پر بٹھائے گی۔ یہ لوگ صرف اپنے کیسز میں طوالت حاصل کر لیں یا کسی حد تک ختم کروالیں تو ان کی بڑی کامیابی ہو گی چہ جائے کہ یہ ہم پر ایک بار پھر مسلط کر دئیے جائیں! اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈسکہ بارے الیکشن کمیشن کے فیصلے نے حیران ضرور کیا، مگر ایک ادارے کا فیصلہ ہے، اداروں کی مضبوطی اسی میں ہے کہ فیصلوں کو منظور کیا جائے۔ اب پی ٹی آئی کے کچھ حلقے چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجہ پر تنقید کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ سابق سینئر بیورو کریٹ سعید مہدی کے داماد ہیں۔ مگر ان کا سارا کیئرئیر بہترین اور شفاف ہے اور ان کا
نام خود حکومتی حلقوں نے تجویز کیا تھا۔ میری اس خاندان سے پرانی سلام دعا ہے میں اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب رول آف لاء پر یقین کرنے والے ہیں۔ اسی طرح عامر احمد علی بھلے سعید مہدی کے بیٹے ہیں۔ مگر بحیثیت چیئرمین سی ڈی اے ان کی کارکردگی نہایت عمدہ ہے۔ اسی طرح چیف کمشنر اسلام آباد کی حیثیت میں بھی ان پر کوئی انگلی نہ اٹھی۔ دوسری طرف فخر سلطان راجہ ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد جو سلطان سکندر راجہ کے چھوٹے بھائی ہیں جن کی پرفارمنس نہایت بہترین ہے۔
چنانچہ ایسے حالات میں یکدم الیکشن کمیشن پر چڑھائی کر دینا مناسب نہ ہو گا۔ آنے والے دنوں میں ان کے دیگر فیصلوں کا انتظار کریں ہو سکتا ہے کہ اس وقت اپوزیشن والے رس گلے کھانا بھول جائیں۔ الیکشن کمیشن کے ایک سابق سیکرٹری ہمارے بڑے اچھے دوست کا فرمانا ہے کہ الیکشن کمیشن کا سپریم کورٹ میں وہی موقف ہے جو آئین اور قانون میں درج ہے وہ ایک لفظ بھی دائیں یا بائیں نہیں جا رہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نیب اتنے طویل عرصے میں حمزہ شہباز کے خلاف کچھ ثابت نہ کر سکی۔ چنانچہ ان کی رہائی ممکن ہوئی۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے، دوسرا رخ مسلم لیگ ’ن‘ کی اندرونی گروپ بندی ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ حمزہ شہباز نے جیل سے باہر آ کر پہلی تقریر میں ہی کہا کہ نواز شریف کو آنا ہو گا اور نیازی کو جانا ہوگا۔ ایسے میں شہزادی کو بھی ’’اوقات‘‘ میں رکھنا ہے اور شتربے مہار آزادی نہیں دی جا سکتی۔ اس طرح غالب امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں شہباز شریف کو بھی شاید رہائی نصیب ہو جائے، ویسے بھی یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عدالتوں میں ثابت کچھ نہ ہو سکے اور آپ لوگوں کو جیل میں ڈالے رکھیں۔
سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ سنا دیا ہے۔ کوئی اسے اپنی جیت یا حکومتی رسوائی سمجھ رہا ہے مگر تفصیل پڑھنے اور سمجھنے کے بعد کوئی تبصرہ کرنا مشکل نہیں۔ پنجاب میں سینیٹرز کا بلا مقابلہ منتخب ہونا بہت اچھی روایت ہے اور اس کا تمام کریڈٹ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو جاتا ہے۔ ہم تو روزِ اول سے عمران خان پر زور دے رہے تھے کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ انہیں بنایا جائے، ان کا وسیع تجربہ اور سیاسی خاندانی پس منظر کا کوئی مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اس موقع پر پرویز رشید کے کاغذات نامنظور
ہونے پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے اور واقفانِ حال یہ بھی جانتے ہیں کہ شہباز شریف لابی اُنہیں ٹکٹ دینے کی خواہاں نہ تھی۔ اب آ جاتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کے رول پر! ریاست کو کبھی کمزور نہیں کیا جانا چاہئیے بھلے کچھ ہی ہو جائے۔ معیشت ہماری کمزور، اندرونی و بیرونی تھریٹس کا ہم شکار، سیاسی عدم استحکام، بھلے ایسے حالات میں کہ جب تک ایڈوانس منصوبہ بندی نہ ہو، موجودہ حکومت کو کیسے کمزور یا ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہم خود اس موجودہ فرسودہ سیاسی نظام سے دل برداشتہ، کہ جس میں ہر طرف لوٹ مار کا بازار لگا ہو، خواہش مند کہ ٹیکنو کریٹ گورنمنٹ لائی جائے یا پھر سخت قسم کا ’’دما دم مست قلندر‘‘ جو فی الحال ممکن نہیں۔ چنانچہ سارا نظام فی الحال ایسا ہی چلے گا۔ اور اسی تنخواہ پر کام کرنا پڑے گا!۔