تجزیہ: محمد اکرم چودھری
تحریک عدم اعتماد کے اعلان کی وجہ سے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے، کون کس کے ساتھ ہے، کس نے کس سے وعدہ کر رکھا ہے، کون لڑکھڑایا ہے، کون ڈگمگایا ہے سب پتہ چل جائے گا۔ حزب اختلاف کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ جمہوری طریقوں سے کام کر رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دوران اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے خاتمے کے لیے غیر جمہوری طریقوں کی بھی پوری کوشش کی۔ جمہوریت کے علمبرداروں نے غیر جمہوری انداز میں جمہوری حکومت کے خاتمے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن انہیں کامیابی نہیں مل سکی۔ اس کے بعد کوئی لاکھ دعوے کرتا رہے کہ جمہوریت کے فروغ اور پارلیمانی نظام کے دفاع کی دلیلیں دیتا رہے حقائق وقت آنے پر سب کے سامنے ضرور آئیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جمہوریت کے نام نہاد علمبردار ہی اس کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ گذشتہ کئی ماہ سے ملکی سیاست تحریک عدم اعتماد کے گرد ہی گھومتی رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے بھی پورا زور لگایا ہے جبکہ حکومت نے بھی اس کا توڑ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آخری حربہ وزیراعظم عمران خان کی ذاتی حیثیت میں ملاقاتیں تھیں وہ بھی اپوزیشن کو روکنے کے لیے جو کر سکتے تھے انہوں نے کیا ہے۔ حتیٰ کہ مشکل وقت میں پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں کمی اور بجٹ تک قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا اعلان بھی خالصتاً سیاسی فیصلہ ہے اس کا عوامی فلاح و بہبود یا بہتر مستقبل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سیاسی فیصلہ ہے اور اس کا پس منظر اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیاں ہی ہیں۔ بہرحال اب یہ سیاسی جنگ حتمی مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ میں نے کئی ماہ قبل انہی صفحات پر مارچ میں تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اپنے قارئین کو آگاہ کر دیا تھا۔ تحریک عدم اعتماد آئے یا نہ آئے، کامیاب ہو یا ناکام ہو اس سے پاکستان کے ستانوے فیصد لوگوں کو فرق نہیں پڑتا لیکن ایک مرتبہ پھر یہ بات ثابت ضرور ہوئی ہے کہ پاکستان کے سیاستدان ناپختہ سیاسی سوچ رکھتے ہیں وہ ہر وقت ذاتی مفادات کی سیاست کرتے ہیں کل تک تحریک عدم اعتماد کی مخالفت کرنے والے میاں نواز شریف بھی آج صرف اس لیے راضی ہیں کہ انہیں عوام کی تکلیف، ملکی مفاد سے زیادہ فکر آئندہ عام انتخابات کی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے اعلان سے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ
Mar 03, 2022