جدوجہدِ آزادی زندہ باد 

Mar 03, 2022


مقبوضہ کشمیر کی جنت نظیر وادی میں بھارتی بربریت مسلسل جاری ہے۔ قابض بھارتی فوج مظلوم اورنہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے، آج وادی کے طول و عرض میں ایک سرگوشی کی سی کیفیت ہے کہ اب کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی تحریک اب مر جھا رہی ہے۔ اگست 2019ء میں جو نریندر مودی کی حکومت نے ہندوستان کے آئین میں تبدیلی کرتے ہوئے آرٹیکل 370 اور 35A کو ختم کر دیا جس کے تحت مقبوضہ ریاست کو ہندوستان کے آئین میں خصوصی حیثیت حاصل تھی اسکے بعد سے اب تک زمینی صورتحال میں کافی تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ نریندر مودی کی مرکزی حکومت ایک سوچے سمجھے منصوبے پر عمل پیرا ہے جو کہ تمام منصوبوں سے مختلف ہے، مودی ایک خطرناک کھیل ، کھیل رہا ہے جس کا مقصد مقبوضہ کشمیرکی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنا ہے تاکہ وہاں کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔ دیکھنے میں یہ منصوبہ اتنا آسان نہیں لگتا تھا مگر ہندوستان کی مرکزی حکومت ایک دیرپا منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو بالخصوص مسلمان آبادی کو اس بات کا خطرہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں ایک ہندو وزیر اعلیٰ لانا چاہتی ہے جو کہ آج تک نہیں ہو سکا۔ یہ صرف اب ایک نظریہ یا مفروضہ نہیں رہا بلکہ اس پر باقاعدہ کام بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ اگست 2019ء کے انتہائی اقدام کے بعد ایک حلقہ بندی کمیشن بنایا گیا جس کا سربراہ بمبئی ہائی کورٹ کے ایک ہندو جج کو بنایا گیا جس کو مقبوضہ وادی کی تاریخ، جغرافیہ، سیاست اور تنازعے کے بارے میں کوئی علم اور تجربہ نہیں تھا۔ اسکے ساتھ پانچ اور ایسوسی ایٹ ممبرز بھی بنائے گئے جن میں سے تین کا تعلق فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس سے ہے اور دو کا تعلق بی جے پی سے ہے، نیشنل کانفرنس کے اراکین کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ انہیں علم ہی نہیں کہ کمیشن نے کیا سفارشات مرتب کی ہیں جو کہ اب آئندہ دو ہفتوں میں مرکزی حکومت کو پیش کر دی جائیں گی کیونکہ کمیشن کی معیاد 6 مارچ کو ختم ہو رہی ہے، فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے تینوں اراکین نے نہ کوئی اعتراض کیا ہے اور نہ ہی احتجاج، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ اس سازش میں باقاعدہ شامل ہیں جس کے تحت آئین سے من پسند تجاویز لے لی جائیں گی اس کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں حلقہ بندیوں میں اس طرح ردوبدل کیا جائیگا کہ جموں کے ہندو اکثریت والے علاقے کی وادی کے مسئلے ان اکثریت والے علاقے کے تقریباً برابر کر دی جائیں اس طرح بی جے پی اور فاروق عبداللہ جیسے ابن الوقت کو ساتھ ملا کر مقبوضہ ریاست میں ایک ہندو وزیر اعلیٰ کو براجمان کر دیا جائے جو مرکز کی مرضی اور منشاء کے مطابق کام کرے۔ اسکے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت نے آرٹیکل 35A کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے غیر کشمیریوں کو بھی مقبوضہ وادی میں جائیداد خریدنے کا حق دے دیا ہے۔ اب وادی کے مسلمان اکثریت والے علاقوں میں نئی ہائوسنگ کالونیاں اور کاروبار کھلتے نظر آ رہے ہیں جن کے مالک ریاست کے باہر سے تعلق رکھنے والے بااثر ہندو بزنس مین ہیں۔ اس سے بھی علاقے کی ڈیموگرافی تبدیل ہو جائیگی۔ مزید یہاں مقبوضہ علاقے میں تشدد اور بربریت کی بدترین کارروائیاں جاری ہیں، ظالمانہ قوانین کے ذریعے لوگوں کو جیلوں میں بھر دیا گیا ہے، عورتوں اور بچوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا ہے، لوگوں کے کاروبار تباہ کر دئیے گئے ہیں، میڈیا پر مکمل پابندی ہے جس کی وجہ سے وہاں کی صورتحال باہر کی دنیا تک بھی نہیں پہنچ رہی ہے، مسلمان صحافیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے یہاں تک کہ سوشل میڈیا کے استعمال پر بھی پابندی ہے، سری نگر کا کشمیر پریس کلب گزشتہ دو ماہ سے بند ہے اور وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں۔ اس ساری صورتحال میں کوئی بڑا عوامی ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا جس سے ہندوستان کی حکومت کو شہ ملی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ اب جدوجہد آزادی کو دبا دیا گیا ہے، سید علی گیلانی اور محمد اشرف صحرائی جیسے جدوجہد آزادی کے عظیم بااصول، نظریاتی اور نڈر راہنما اب دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں جبکہ یاسین ملک، شیر شاہ، میر واعظ عمر فاروق اور آسیہ اندرابی جیسے راہنما قید و بند میں ہیں، اس گھمبیر صورتحال میں مسئلہ کشمیر اور جدوجہد آزادی کے اہم ترین فریق پاکستان کو بھی اپنا خصوصی کردار ادا کرنا چاہیے اور کشمیریوں عوام کو مایوسی سے بچانا چاہیے۔ فاروق عبداللہ ، محبوبہ مفتی، غلام نبی آزاد اور عمر عبداللہ جیسے موقع پرست اور ریاست دشمن مسلمان سیاست دان جنہوں نے ہمیشہ اقتدار کی خاطر مقبوضہ وادی کے مسلمان عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے پھر اس امید کے ساتھ مصروف عمل ہیںکہ اس صورتحال میں انہیں پھر کچھ مل جائے اور وہ نریندر مودی کے اس مکروہ اور گھنائونے منصوبے کا آلہ کار بن جائیں، بہرحال حکومت پاکستان اور ہمارے فیصلہ سازوں کو اپنی حکمت عملی کا ازسرنو جائزہ لینے کی فوری ضرورت ہے تاکہ ان کی کشمیریوں کیلئے اٹھائی جانیوالی آواز ہر طرف سنائی دے۔ 

مزیدخبریں