وزارت خارجہ کے کہنہ مشق ، تعلیمی و سفارتی قابلیت سے بھر پور امیر خرم راٹھور بن محمد اشرف راٹھور نے اپنی سالگرہ کے دن ہی سعودی عرب کے سفیر کے اہم عہدے پر تعیناتی پر سعودی حکام کو اپنی اسناد پیش کئے ، مجھے یہاں تیس سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے کئی سفراء نے یہاں اپنی ذمہ داریا ں اداکی ہیں انہوںنے کمیونٹی میںمقبولیت بھی حاصل کی ہے ، ان تیس سالوں مین وزارت خارجہ سے تجربہ کار سفارت کار کم ، پرچی والے سفراء اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ یہاںتعینات ہوئے ۔ان تیس سالوںمیںوزارت خارجہ سے آفتاب کھوکر ، عارف کمال ،چوہدری نواز، راشد سلیم خان،جیسے مشاق سفارت کار یہاںتعینات رہے ہیں یا اسوقت جدہ کے قونصل جنرل خالد مجید کمیونٹی میں مقبول ہیں۔ میرے یہاںوجود کے تیس سال اور موجودہ حکومت پاکستان کے ساڑھے تین سالوں میں امیر خرم راٹھور کی قابلیت کو داد دینے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ، گو کہ وہ یہاں ابھی نئے آئے ہیں ’’ابھی عشق میں کے امتحان اور بھی‘‘ سعودی عرب جو ہماری قریب ترین دوست اور دیرینہ رشتوںکا حامل ہے پاکستان کے ہر اچھے برے وقت اگر میں کہوں تو غلط نہیں دوست وہی ہوتا ہے جو برے اور ضرورت پڑنے پر آپکے ساتھ کھڑا ہونیز اسوقت پاکستان کو اپنے قریب ترین دوستو کے ساتھ اشد ضرورت ہے اس لحاظ سے امیر خرم راٹھور کی تعیناتی تحریک انصاف حکومت کا ایک بڑا کارنامہ ہے ، یہ احساس مجھے امیر خرم راٹھو ر سفیر پاکستان کی علمی اور سفارتکاری میں ایک مضبوط تفصیل دیکھ کر ہوا۔ سفیر امیر خرم راٹھور نے اپنی قابلیت کالوہا بہ حیثیت لکھاری بھی منوایا ہے وہ اسوقت سترویں صدی کے عظیم صوفی پیر عبدالطیف شاہ قادری جو ’’بری امام ‘‘ کے نام سے شہرت رکھتے ہیںکیلئے کتاب پر کام کررہے ہیں اس سے قبل انکے شاندار آرٹیکلز کیری لوگر بل اور اسکے نتائج پر 2019ء میں تحقیقی مقالہ شائع ہوچکا ہے ، نیز 2008ء میں through way of surrender قران پاک کے حوالے سے تفسیر بھی کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے اسکے علاو ہ میر ی سماعت سے کچھ سال قبل انکا لیکچر کلچر ڈیموکریسی بھی گزرا تھا تو جو بہت شاندار تھا ۔امید ہے کہ اپنی سعودی عرب میں سفارتی ذمہ داریوںکے ساتھ اپنی تحریروں سے آنے والی نسلوں کو ضرور روشنی مہیا کرینگے ، اتنی قابلیت کے بعد اگر پاکستان کے معاملات ، خلیجی معاملات اور پاکستان کی ضروریات و مشکلات پر بھی قلم بند کریں تو وہ ایک اچھے تحقیقی مقالے ہونگے ، نیز بیشتر ممالک میں ذمہ داریاںسنبھالنے کے دوران پاکستانی معاشرہ اور بیرون دنیا کے معاشروںکا تقابلی جائزہ تحریر کریں تو وہ بھی دلچسپی کا باعث ہوگا ایک طویل عرصے سفارت کاری کے بعد امیر خرم راٹھور ایک بہترین مسلمان بھی ہیں جسکا ثبوت یہ ہے کہ سعودی عرب میں اسناد دینے کے بعد اپنی سفارتکاری کی ابتداء انہوںنے رسول مقبول ﷺ کے روضہ رسول حاضری دیکر مدینہ منورہ سے کی اور وہاںپاکستان کمیونٹی اور پاکستانی تاجروں سے ملاقات سے کیا۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کو سفیر پاکستان سے بے شمار توقعات وابسطہ ہیں ۔ سعودی عرب ہمارا بہترین دوست ملک ہے جو ہر وقت پاکستان کے مسائل پر اپنی تمام تر ہمدردیاں رکھتا ہے اور انہیں حل کرنے میں ہر حکومت کے ساتھ تعاون کرتا ہے سعودی عرب کی دوستی پاکستان کی کسی شخصیت سے نہیں بلکہ پاکستان اور پاکستان کے عوام سے ہے۔ سعودی عرب میں سفارتی معاملات کے علاوہ سب سے اہم سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تجارت ہے جس میں پاکستان اپنا حصہ نہیںلے پارہا ۔ اسکی وجہ ہمارے کمرشل شعبوں کی کوتاہی نہیں بلکہ جس حالات میں وہ کام کررہے ہیں وہاں انہیںممکنہ سہولیات فراہم نہیں ، مثال کے طور پر جدہ کمرشل شعبہ میں صرف دو افراد ہی اپنی تمام تر توانیاں صرف کئے ہوئے ہیں اور ہر ممکن تجارتی فروغ کی کوشش کرتے ہیں دیگر ممالک میں پاکستان کے پڑوس کو ہی لے لیںوہاں کے افسران کو تمام تر سہولیت حاصل ہیں ، وہ تجارت بھر پور انداز میں کررہے ہیں خاص طور پر سعودی عرب میں درآمدات،یہاں پاکستانی اسکولوں کے مسائل ہیں جہاںتعلیم تو ہے مگر طلباء و طالبات کے والدین چند اسکولوںکی انتظامیہ کے منفی انداز میں نوکر شاہانہ رویوں سے سخت نالاںہیں انہیں تربیت اور کی اشد ضرورت ہے ۔ اسوقت دنیا میں میڈیا کا دور ہے ، سعودی عرب میں ہمارے شعبہ پریس کو پاکستا ن میں میڈیا پر توجہ دینے کے بجائے مقامی میڈیا میںاثر و رسوخ کی ضرورت ہے ہماری حکومتی پالیسیوںاور خاص طور پر ہمارے کشمیر پر موقف کی تشہیر ضروری ہے ، پاکستان میں میڈیا کو خبریںفراہم کرنے کیلئے تجربہ کار پاکستانی موجود ہیں ۔ اسلئے سفیر امیر خرم راٹھور سے امید ہے کہ یہاںموجود سفارت کاروںسے علیحدہ علیحدہ مقامی معاملات پر بریفینگ لیں سب دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا ۔اور سفیر محترم کیلئے آنے والے وقتوںمیں آسانیاںہونگیں۔