یہ راز بھی کسی کو معلوم نہیں کہ گھوڑوں کی خریداری کیلئے نواز شریف اپنی دولت کا کتنا حصہ خرچ کرے گااور زرداری اپنے خزانوں کا کتنا منہ کھولے گا؟ سب سے بڑا تعجب خیز سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کو پیپلزپارٹی کے 27فروری سے شروع کئے جانے والے لانگ مارچ کے ذریعے نکالا جائیگا ،یا مولانا فضل الرحمن کی پارٹی 23مارچ کی قومی پریڈ کو تلپٹ کرناچاہتی ہے ،یا ان دونوں راستوں کو چھوڑ کر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے شہبازشریف کے سرپر ہی یہ سہرا سجایا جائیگا کہ وہ عمران خان کو رخصت کریں ۔
میں نے چھوٹی سکرین کے تجزیہ کاروں سے کئی بار یہ کہتے سنا ہے کہ تحریک ِ عدم اعتماد نے اگر کامیاب ہونا ہے تو اس کیلئے کہیں سے اشارہ ہوگایا پراسرار فون کالز آئیں گی ،جیسا کہ ہم کسی بھی تبدیلی کیلئے ہمیشہ دیکھتے آئے ہیں ۔ لوگوں کی نگاہیں ایمپائر کی انگلی پر لگی ہیں کہ وہ کب اٹھتی ہے۔مجھے ٹی وی کے ان تجزیہ کاروں کی دماغی حالت پر رحم آتا ہے کہ جنہوں نے پچھلے تین سال سے تو اشاروں اور ٹیلی فون کالز کیخلاف فضا بنائی اورایمپائر کی انگلی کا مذاق اڑانے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔مگر اب ان کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں کہ کہیں سے اشارہ ہوا کہ ہُوا…ایمپائر کسی وقت بھی انگلی اٹھادے گا یا فضا میں لہرادے گایا راتوں رات کالیں آئیں گی اور لوگوں کی وفاداریاں تبدیل ہوجائیں گی ۔میں یہ باتیں انتہائی بددلی سے تحریر کررہا ہوں کیونکہ میں ان نظریات و خیالات سے ہرگز متفق نہیں۔ لیکن میرے لئے ان کا ذکر اس لئے واجب تھا کہ میرے کان یہ تجزیے سن سن کرپک گئے ہیں۔ میں ان تجزیہ کاروں سے پوچھتا ہوں کہ اگر تبدیلی اشاروں اور فون کالز سے ہی آنی ہے ، تو پھر 2018 ء کے الیکشن میں جو تبدیلی آئی تھی ، وہ کیوں بُری لگ رہی ہے ۔
اگر آج ایمپائر کی انگلی کے اشارے پر تبدیلی گوارا ہے تو پہلی تبدیلی میں کیوں کیڑے پڑگئے ہیں؟آج بڑے دھڑلے سے تجزیہ کیا جاتا ہے کہ چودھریوں کا گھرانہ تو اشاروں پر چلنے کا عادی ہے ،مگر کوئی یہ تو بتائے زرداری اور نوازشریف ان اشاروں سے امیدیں کیوں لگائے بیٹھے ہیں؟میں بار بار یہ کہہ رہا ہوں کہ مجھے ان خیالات سے قطعاً اتفاق نہیں ، مگر کیا کروں کہ تجزیہ کر نا بھی ایک ضرورت بن گئی ہے ۔
میں تجزیہ کاروں کو ان کے حال پر چھوڑ تا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ ان کے حال پر رحم کرے اور ان کی دماغی حالت درست رکھے۔لیکن میں اپنے تجربے کار اور گھاگ سیاستدانوں اور اس ملک کے معصوم عوام سے ایک بات ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ خدا کیلئے ایمپائروں، اشاروں اور فون کالز کی زبان میں باتیں کرکے پاکستان کے سیکورٹی ادارے کو اپنی سیاست میں نہ گھسیٹیں۔ پاکستان کی فوج کو بدنام کرنا اور کمزور کرنا ہمارے دشمنوں کا منصوبہ ہے۔ یہ ففتھ جنریشن وار کا ایک حصہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی دانت نکالنے کیلئے اس کی فوج کو بلڈوز کرنا ضروری ہے اور اس وقت اسے عوام کی نظروںمیں گرانے کی مہم زوروں پر ہے ۔ یہ مہم تب بھی چلائی گئی تھی ،جب یہ کہا گیا تھا کہ عمران خان کو فوج کی حمایت حاصل ہے ، اور آج اس سے کہیں زیادہ مکروہ تر پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اپوزیشن کو فوج کی حمایت حاصل ہے ۔
عوام اور فوج کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کا نتیجہ ہم 71ء میں بھگت چکے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے عوام کو بھارت نے براہ راست زہریلا پروپیگنڈا کرکے اکسایا تھا اور یوں وطن عزیز کو دولخت کردیا تھا۔ آج بھارت کو بولنے کی ضرورت نہیں ، ہم خود اس کے بھونپو بنے ہوئے ہیں اور فوج اور عوام میں دوریاں پیداکررہے ہیں۔ میں اپنے قومی سیاستدانوں اور عوام کی دانش پر اعتماد کرتا ہوں اور ان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور فوج کیخلاف جذبات نہ ابھاریں ۔ یہ مت بھولیں کہ آج فوج کی طاقت کی وجہ سے بھارت کے چنگل میں جانے سے محفوظ ہیں ۔ ہم اس لئے بھی محفوظ ہیں کہ ہمارے افسروجوان یخ بستہ راتوں کے اندھیرے میں سرحدوں کے پہرے دار ہیں ۔ میں اپنے تجزیہ کاروں سے بھی کہتاہوں کہ وہ یوکرائن کے انجام سے بھی سبق سیکھیں۔ یوکرائن نے روسی فوج کے سامنے48گھنٹوں میں گھٹنے ٹیک دیئے۔ روسی فوج یوکرائن کے دارالحکومت کا محاصرہ کئے ہوئے ہے ۔ یوکرائن کے پاس فوج ہوتی تو روسی فوج صرف 48گھنٹوں میں یوکرائن کو زیرنہیںکرسکتی تھی۔روسی فوج کی برق رفتار پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے یوکرائنی صدرکو عوام سے کہنا پڑا کہ وہ خود اپنے دفاع کیلئے ہتھیار اٹھائیں ، وہ روسی ٹینکوں پر پٹرول بم پھینکیں اور آگے بڑھتی ہوئی روسی فوج کے سامنے سڑکوں اور گلیوں میں رکاوٹیں کھڑی کریں ۔ یہ ہوتا ہے اس ملک کا انجام جس کے پاس فو ج نہیں ہوتی ۔ وہاں عوام کو قربانی کا بکرا بننا پڑتا ہے ۔ اور وہ عوام قربانی کا بکرا بننے کی بجائے گھروں سے بھاگ نکلے ہیں۔ یوکرائنی سرحد سے ملحقہ یورپی ملکوں میں لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین قافلوں کی صورت میں پناہ کی تلاش میں داخل ہوچکے ہیں ۔ امریکہ نے ہزاروں میل دور ہونے کے باوجود یہ کہا ہے کہ اس کے دروازے یوکرینی مہاجرین کیلئے کھلے ہیں۔یوکرین کے عوام کا جوحشر نشر ہوا ہے، کیا ہم پاکستانی بھی اسی سے دوچار ہونا چاہتے ہیں ۔
میرا ایمان ہے کہ ایمانی جذبوں سے لبریز اور حب الوطنی سے سرشار پاک فوج کے ہوتے ہوئے کوئی ہماری طرف میلی آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھ سکتا۔ اس لئے آپ نے تحریک ِ عدم اعتماد پیش کرنی ہے تو بڑے شوق سے یہ کھیل کھیلیں ۔ فوج کو درمیان میں مت گھسیٹیں۔ فوج ایک ریاستی ادارہ ہے اور وہ اپنے آئینی فرائض پر کاربند ہے ۔ (ختم شد)
٭…٭…٭
ہارس ٹریڈنگ ، اشاروں اور فون کالزکاانتظار (2)
Mar 03, 2022