بھارتی ریاست کرناٹک وہی تاریخی سرزمین ہے جسے مغلیہ دور میں ریاست میسور بھی کہا جاتا تھا۔ یہی وہ ریاست ہے جہاں شہنشاہ ٹیپو سلطان کی غیرمعمولی شجاعت و بہادری اور اعلیٰ ایڈمنسٹریشن کی بدولت انگریز کو اسے ’’شیرِمیسور‘‘ تو کہنا پڑا مگر بعدازاں اسی انگریز اور ملک و قوم کے دیگر غداروں نے اس شیر سے جو سلوک روا رکھا‘ تاریخ کا آج بھی وہ ایک حصہ ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ یہ ایک خونچکاں داستاں ہے جس پر پھر کبھی سہی۔
اسی سرزمین کی ایک اور بہادر‘ نڈر اور غیور بیٹی نے اگلے روز جرأت اور بہادری کی ایک ایسی داستان رقم کر دی جسے تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائیگا۔ مسکان نامی یہ طالبہ کرناٹک کے اسی کالج میں زیرتعلیم ہے جہاں مودی کی تیار کردہ ذیلی انتہاء پسند تنظیم آر ایس ایس کے بدنام زمانہ اجرتی غنڈے بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مسکان باحجاب ہونے کے عمل کو چونکہ اپنے ایمان کا حصہ تصور کرتی ہے اس لئے معمول کے مطابق وہ حجاب میں کالج آئی۔ اپنا سکوٹر کالج سٹینڈ پر پارک کرنے کے بعد جونہی وہ کالج کے داخلی دروازے کی جانب بڑھی‘ پہلے سے وہاں منتظر ان غنڈوں نے جو بھیڑیوں کا روپ دھار چکے تھے‘ ’’جے جے کرشنا‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے مسکان کی جانب بڑھے اور اسکے حجاب کو اتارے کی بزدلانہ کوشش کی مگر میسور کی یہ شیرنی بلاخوف و خطر اپنی ایمانی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’اللہ اکبر‘ اللہ اکبر‘‘ کے پانچ نعرے لگا کر اپنے قوی ایمان کی بدولت ان بزدل بھیڑیوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔
یہ منظر دیکھتے ہی کالج کے شفیق اور نیک دل پرنسپل نے باحجاب مسکان کی طرف بڑھنے والے ان بھیڑیا نما غنڈوں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے مسکان کو اپنے بازوئوں کی ڈھال میں کالج کے اندر پہنچا کر یہ ثابت کر دیا کہ بھارت میں ہر ہندو مودی کی فاشسٹ پالیسیوں کا پیروکار نہیں۔ اس شرمناک واقعہ کا رونما ہونا تھا کہ اگلے ہی لمحے سوشل میڈیا پر دنیا بھر میں ویڈیو دکھا دی گئی جس میں جنونیت اور انتہاء پسندی واضح طور پر عیاں تھی۔ کرناٹک کے اس کالج میں ایسا واقعہ پہلی مرتبہ رونما نہیں ہوا تھا بلکہ کالج کے بعض اساتذہ کے مطابق اس سے قبل بھی 10 باحجاب سٹوڈنٹس کے خلاف یہ غنڈے ایسی حرکات کر چکے تھے مگر افسوس ایسے واقعات پر ان طالبات نے خاموشی کو اس لئے ترجیح دی کہ یہ ہندو غنڈے انہیں کہیں گھیرائو جلائو کا نشانہ نہ بنا ڈالیں جبکہ مسکان نے اپنی اور اپنے والدین کی جان کی پرواہ کئے بغیر جرأت و بہادری کی ایسی مثال قائم کردی جسے دنیا آج ایک بہادر بچی کے طور پر یاد کررہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انتہائی کم عمری میں بہادری کی تاریخ رقم کرنے والی باحجاب مسکان کے بارے میں عالمی میڈیا اسے خراج تحسین ہی نہیں بین الاقوامی اخبارات اور جریدے شجاعت کی پیکر اس غیور طالبہ کی بہادری پر تسلسل سے مضامین‘ کالم اور تجزیاتی رپورٹس شائع کررہے ہیں جبکہ مہذب دنیا کی مذہبی تنظیمیں اور سوسائٹیاں اس شرمناک واقعہ کو آزادی ء مذہب پر حملہ اور مذہبی عقائد کی کھلی توہین قرار دے رہی ہیں اور یہ سلسلہ تین ہفتے گزرنے کے بعد تاہنوز جاری ہے۔
مجھے یہ ہرگز اندازہ نہ تھا کہ میری گوری کولیگ جو Seventh-day Adventist فرقے کی پیروکار ہے۔ باحجاب مسکان سے درپیش اس شرمناک واقعہ کے مناظر سوشل میڈیا سمیت بی بی سی پر دیکھ چکی ہے۔ فون پر بتانے لگی کہ اس واقعہ کے بعض مناظر نے تو اسے اس قدر اپ سیٹ کیا کہ آج وہ پراپر لنچ بھی نہیں کر پائی۔ اس مسلم سٹوڈنٹس سے ان غنڈوں اور اوباشوں نے جس طرح کا سلوک روا رکھا اور جس طرح اس کیخلاف نعرے لگاتے رہے اس سے مجھے دلی تکلیف پہنچی ہے۔ ’’نیوٹیسٹامنٹ‘‘ ’’اولڈ ٹیسٹامنٹ‘‘ انجیل مقدس کے بارے میں بھی تمہارا مطالعہ چونکہ وسیع ہے‘ دیگر مذاہب پر بھی تم سے بات ہوتی رہتی ہے۔ یہ بتائو کہ ہندو مذہب میں کیا یہی لکھا ہے کہ نہتی لڑکیوں کی بے حرمتی کرتے ہوئے ان پر ٹوٹ پڑو؟ ریٹا نے آخر یہ سوال پوچھ ہی لیا جس کیلئے اس نے فون کیا تھا۔
ہر مذہب انسانیت کا درس دیتے ہوئے محبت و اخوت اور امن کا داعی ہے۔ میں نے ریٹاکو جواب دیتے ہوئے کہا جس طرح اسلام اور عیسائیت محبت اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں اسی طرح ہندو مذہب میں بھی انسانیت کے احترام کے واضح اصول تو ہیں مگر افسوس! کہ نئی ہندو نسل نے گیتا‘ رگ وید اور ششتان پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ خود بھارتی وزیراعظم مودی جو ایک کٹر ہندو ہیں‘ ہندو فلسفہ اور ہندو دھرم کے تصور کا سرے سے انہیں ادراک ہی نہیں۔ انکی مذہبی سوچ کی بنیاد ہی انکی تیار کردہ انتہاء پسند تنظیم آر ایس ایس ہے جس کا بنیادی مقصد ہی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کیخلاف دہشت پھیلانا ہے۔ ایسے خوفناک حالات میں ہندو مذہب کا مطالعہ کون کریگا۔ ریٹا کو اسکے سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا! میری معلومات میں اضافہ کرنے کا شکریہ‘ ریٹا نے اجازت لیتے ہوئے کہا۔
اب ایک طرف تو مہذب دنیا کرناٹک کی اس باحجاب طالبہ سے اظہار یکجہتی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور دوسری جانب جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں‘ ہائیکورٹ نے عبوری حکم کے تحت باحجاب مسلمان طالبات اور اساتذہ کا سکولوں میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا ہے۔ ضلع مانڈیا کے تمام سکول و کالجز میں باحجاب طالبات و اساتذہ پر اس کا اطلاق ہوگا۔ سوچتا ہوں سیکولر کا ڈھنڈورا پیٹنے والی مودی سرکار دنیا کو اپنا پراگندہ چہرہ کیسے دکھائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اوآئی سی اس معاملے کو فوری طور پر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اٹھائے تاکہ بھارت میں مسلمانوں کی حفاظت اور انکی سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے۔
٭…٭…٭