پاک روس تعلقات: غلط فہمیوں کا ازالہ


(گزشتہ سے پیوستہ)
اس کالم کی پچھلی قسط میں یہ بتایا گیا تھا کہ پاکستان اور روس کے تعلقات کے حوالے سے ہمارے ہاں کون کون سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا تھا کہ حقائق کیا ہیں۔ اب وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورۂ روس سے متعلق اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ یہ دورہ کس نوعیت کا تھا۔ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ عمران خان کا یہ دورہ سٹیٹ وزٹ تھا۔ سفارت کاری کی اصطلاح میں سٹیٹ وزٹ ایک خاص طرح کے دورے کو کہا جاتا ہے اور عمران خان کا یہ دورہ اس ذیل میں نہیں آتا۔ روسی صدر کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس دورے کو ورکنگ وزٹ قرار دیا گیا۔ کسی بھی ملک کے سربراہِ مملکت یا حکومت کے کسی دوسرے ملک کے سرکاری دوروں کی درجہ بندی، سفارت کاری کے اصولوں کے مطابق، کچھ یوں ہوتی ہے: سٹیٹ وزٹ، آفیشل وزٹ، آفیشل ورکنگ وزٹ، ورکنگ وزٹ، گیسٹ آف گورنمنٹ وزٹ، پرائیویٹ وزٹ۔ دیگر دوروں کے برعکس پرائیویٹ وزٹ یا نجی دورہ گو کہ کسی دعوت نامے کے بغیر بھی ہوسکتا ہے لیکن ایک ملک کا سربراہِ مملکت یا حکومت ہونے کی وجہ سے کچھ خاص انتظامات کی ضرورت پیش آتی ہے جن کی وجہ سے یہ دورہ نجی ہوتے ہوئے بھی عام نہیں ہوتا۔
خیر، عمران خان کا یہ دورہ کئی حوالوں سے بہت اہم تھا اور بین الاقوامی سطح پر یہ موضوعِ بحث بھی بنا۔ اس کے موضوعِ بحث بننے کی ایک بڑی وجہ وہ حالات ہیں جو اس دورے کے دوران پیدا ہوئے جن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسی دوران روس نے ہمسایہ ملک یوکرائن پر حملہ کردیا۔ اسی بنا پر سیاسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ وزیراعظم کو اس دورے کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے تمام عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے اس احتیاط سے کرنا چاہیے تھا کہ کل اس دورے کی وجہ سے پاکستان کو کسی بھی بین الاقوامی فورم پر کسی حوالے سے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اب تو یہ دورہ ہوچکا ہے اور اس کے دوران جو کچھ ہونا تھا وہ بھی ہوچکا ہے، لہٰذا ہم وقت کے پہیے کو پیچھے گھما کر اس سب کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آگے ہم نے کیا کرنا ہے جس سے ہم بین الاقوامی سطح پر ہمارے لیے مسائل پیدا نہ ہوں۔ اس سلسلے میں پاکستان کو اپنے دوست چین سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے جو ہر حوالے سے طاقتور اور مضبوط ہونے کے باوجود روس اور یوکرائن کی جنگ کے معاملے میں بہت احتیاط سے کام لے رہا ہے۔
پاکستان کی طرف سے یہ اچھا فیصلہ کیا گیا ہے کہ مذکورہ جنگ سے متعلق ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں کسی بھی فریق کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ اسی لیے پاکستان نے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اجلاس امریکا کے ایما پر بلایا گیا ہے۔ امریکا اس سے پہلے 25 فروری کو سلامتی کونسل کا اجلاس بلا کر یہ کوشش کرچکا ہے کہ روس کے خلاف کوئی ایسی قرارداد منظور کرا لی جائے جس کے ذریعے اسے دبایا جاسکے لیکن روس نے سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے اس امکان کو ویٹو پاور کی مدد سے رد کردیا۔ سلامتی کونسل کے اس اجلاس میں پانچ مستقل اور دس غیر مستقل ارکان میں سے امریکا سمیت 11 ارکان نے امریکی قرارداد کی حمایت کی، چین، بھارت اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے ووٹ دینے سے گریز کیا جبکہ روس نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے قرارداد کو کسی واضح شکل میں ڈھلنے ہی سے روک دیا۔ اب جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس کے ذریعے امریکا اور اس کے اتحادی روس کو دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یورپی یونین، برطانیہ، کینیڈا، جاپان اور آسٹریلیا سمیت 22 ممالک کے اہم سفارت کاروں نے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ وہ ان کے ساتھ مل کر جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں روس کی مذمت کرے لیکن پاکستان نے اس سے گریز کیا۔
اس جنگی صورتحال اور اس کی وجہ سے دنیا بھر سے روس کی مخالفت میں جو آوازیں اٹھ رہی ہیں، ان سب سے ہٹ کر دیکھا جائے تو روس دنیا میں ایک بڑے اور اہم ملک کے طور پر اپنا اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلکس (یو ایس ایس آر) یا سوویت یونین کے ٹوٹ کر مختلف حصوں میں تقسیم ہو جانے کے بعد بھی رقبے کے لحاظ سے روس دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور قدرتی وسائل، بالخصوص قدرتی گیس، کے لیے یورپ کے بہت سے ممالک کو اس پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ پورے یورپ کو ملنے والی قدرتی گیس کا تقریباً چالیس فیصد حصہ روس دیتا ہے، بقیہ رسد ناروے اور الجیریا سے ملتی ہے۔ قدرتی گیس کے علاوہ یورپی یونین کو تیل کی فراہمی کے لیے بھی روس کی ضرورت پڑتی ہے اور یورپ کی تیل کی زیادہ تر ضروریات روس ہی پوری کرتا ہے۔ علاوہ ازیں، یورپی ممالک کے روس سے تجارتی روابط بھی بہت گہرے اور مضبوط ہیں۔ اندریں حالات، یورپی یونین چاہ کر بھی امریکا کے کہنے پر روس کے خلاف کوئی ایسا اقدام نہیں کرسکتی جس سے کوئی ایسی صورتحال پیدا ہوجائے کہ یورپی ممالک کے عوام کی ضروریات بھی پوری نہ ہوسکیں۔ 
قدرتی گیس اور تیل کے علاوہ روس سائنس، ٹیکنالوجی اور دفاعی پیداوار کے حوالے سے بھی دنیا کے اہم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کو روس ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ کسی بھی طرح اسے آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ روس اور امریکا کے مابین یہ مخاصمت آج سے نہیں بلکہ دہائیوں سے جاری ہے۔ کبھی یہ مخاصمت سرد جنگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو کبھی کوئی ملک ان دونوں کی طاقت آزمائی کے لیے اسی طرح کا بکرا بن جاتا ہے جیسا افغانستان کے روایتی کھیل بز کشی میں استعمال ہوتا ہے۔ خود افغانستان بھی ماضی میں روس اور امریکا کی اس زور آزمائی کا نشانہ بن چکا ہے۔ اب یوکرائن بھی ذرا مختلف طریقے سے اسی صورتحال کا شکار ہے۔ یہ دونوں ممالک صرف دنیا میں ہی نہیں بلکہ خلائی مہمات اور دوسرے سیاروں اور ستاروں تک رسائی کے معاملے میں بھی ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے مسلسل کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن روس کے مقابلے میں امریکا نے اب تک اپنے گھر سے نکل کر دوسرے ممالک میں تباہی زیادہ پھیلائی ہے اور اس سلسلے میں بہت سے یورپی ممالک، بالخصوص انگلستان، نے اس کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔
اس پوری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کو وہ فیصلہ کرنا چاہیے جو اس کے لیے طویل مدتی تناظر میں زیادہ مفید ہو، اور اس سلسلے میں جذبات یا دباؤ میں ہرگز نہیں آنا چاہیے کیونکہ ملکوں کے ایک دوسرے سے تعلقات افراد کے تعلقات جیسے نہیں ہوتے۔ بین الاقوامی سطح پر نہ تو کوئی مستقل دوستی ہوتی ہے اور نہ ہی دشمنی۔ ہر ملک یہ دیکھتا ہے کہ کون سی صورتحال میں اس کے مفادات کا تحفظ کیسے ہوسکتا ہے اور اسی بات کو رہنما اصول مان کر وہ سب کچھ کیا جاتا ہے جس سے اس کے مفادات کا تحفظ ہوسکے۔ پاکستان ماضی میں قلیل مدتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے یا جذبات کی وجہ سے بعض ایسے فیصلے کرچکا ہے جو بطور ریاست اس کے لیے مفید ثابت نہیں ہوئے ، بہتر ہوگا کہ اب ایسا کوئی بھی فیصلہ نہ کیا جائے تاکہ ریاست کو پھر سے ایک لمبے وقت کے لیے اس کی قیمت نہ چکانا پڑے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ختم شد)

ای پیپر دی نیشن