یہ کالم لکھنے کے لئے قلم میں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد اٹھایا ہے۔پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں کے لئے 90دنوں میں انتخاب کروانے کا حکم ہے۔یہ حکم پانچ رکنی بنچ کی جانب سے آیا۔اس میں شامل دو عزت مآب ججوں نے مذکورہ فیصلے سے اگرچہ اختلاف کیا۔ان کی دانست میں ازخودنوٹس کے ذریعے صوبائی انتخابات کی تاریخ طے کرنا غالباََ مناسب نہیں تھا۔
جو فیصلہ آیا ہے اس کے بعد ”سیاسی امور“ کی بابت مجھ جیسے قلم فرسائی کے عادی کالم نگار کو ”اب کیا ہوگا“ پر توجہ دینا چاہیے۔یہ اعتراف کرنا بھی شاید لازمی ہے کہ عمران خان صاحب کا تشکیل کردہ بیانیہ اور حکمت عملی کامیاب رہی ہے۔پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں کی قبل از وقت تحلیل کے ذریعے وہ سیاسی اعتبار سے جو حاصل کرنا چاہتے تھے اس کے حصول میں کامیاب رہے۔
جو فضا بن رہی ہے وہ یہ عندیہ بھی دے رہی ہے کہ پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے میں جو انتخاب ہوں گے تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار ان کی وجہ سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔دفاعی اعتبار سے اہم ترین خیبرپختونخواہ میں بھی ایسی ہی صورتحال نمودار ہوسکتی ہے۔جو منظر بن رہا ہے وہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے آئندہ انتخابات کے دوران بھی تحریک انصاف کو توانا تر بنائے گا۔عمران خان صاحب اس کی بدولت بھاری بھر کم اکثریت سے وزیر اعظم کے منصب پر واپس لوٹ سکتے ہیں۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟اس سوال کے چسکہ بھرے جوابات ڈھونڈتے ہوئے یہ کالم مکمل کیا جاسکتا ہے۔
آج کی ”دیہاڑی“ لگانے کے لئے اہم مواد کی موجودگی کے باوجود میں اس سے کنی کترانے کو تاہم مجبور محسوس کررہا ہوں۔میری سوئی ان سرخیوں پر اٹکی ہوئی ہے جو بدھ کی صبح میرے گھر آئے اخبارات کے صفحہ اوّل پر نمایاں تھیں۔اردو اخبارات نے انہیں سنسنی خیز انداز میں نہیں اچھالا۔ انگریزی اخبارات ہی اس ضمن میں بازی لیتے نظر آئے۔
دل دہلاتی شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی خبروں نے اطلاع یہ دی ہے کہ منگل کے دن وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے امریکی وزارت خزانہ کے ایک اہم اہلکار سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ امریکی افسر سے ہوئی گفتگو کے دوران گلہ کیا کہ آئی ایم ایف پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی ”امدادی رقم“ فراہم کرنے کے لئے نظربظاہر مخاصمانہ لیت ولعل سے کام لے رہا ہے۔ اس کی خوشنودی کے لئے پاکستان نے پیٹرول،بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافے کا اعلان کردیا ہے۔آئی ایم ایف اس کے باوجود بھی مطمئن نہیں ہوا۔ تقاضہ کررہا ہے کہ بجلی کے حوالے سے برسوں سے جمع ہوئے ”گردشی قرضوں“ سے نجات کے لئے بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں چار روپوں کے قریب مزید اضافہ ہو۔پاکستانی روپے کی قدر کو امریکی ڈالر کے مقابلے میں بازار کے رحم وکرم پر چھوڑ دینے کے باوجود آئی ایم ایف اس شبے کا اظہار کررہا ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ اب بھی پاکستانی روپے کی قدر کو ”توانا“ دکھانے کے لئے ”جگاڑ“ لگانے سے باز نہیں آرہے۔پشاور میں افغان تاجر امریکی ڈالر خریدنے کے لئے سرکاری طورپر طے ہوئے نرخ کے مقابلے میں کم از کم 20اضافی(پاکستانی) روپے ادا کرتے ہیں۔افغان تاجر ہر برس پاکستان کے کرنسی بازار سے 2ارب ڈالر خریدتے ہیں۔آئی ایم ایف لہٰذا مصر ہے کہ پاکستانی روپے کی ”اصل قدر“ وہی ہے جو افغان تاجروں نے طے کی ہے۔یہ قدر سرکاری طورپر اپنالی جائے۔آئی ایم ایف حکومت پاکستان کی جانب سے ”بجٹ خسارے“ کی بابت تیار ہوئے تخمینے سے بھی مطمئن نہیں۔اسے یہ اعتبار بھی نہیں کہ چین اور دیگر ”برادر ملک“ ممکنہ خسارے سے نبردآزما ہونے کے لئے ”ٹھوس سہارے“ فراہم کرنے کو آمادہ ہیں۔پاکستان کو لہٰذا اپنے شہریوں ہی سے مزید ٹیکس جمع کرنا ہوں گے۔
پاکستانی وزیر خزانہ کی امریکی وزارت خزانہ کے اہم اہلکار سے جو گفتگو ہوئی اس کے عواقب کا معاشی مبادیات سے بھی نابلد مجھ جیسا قلم گھسیٹ درست اندازہ نہیں لگا سکتا۔سادہ ترین زبان میں محض اس خدشے کا اظہار ہی کرسکتا ہوں کہ ہماری ریاست کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔مہنگائی اور کسادبازاری کا ایک اور طوفان بھی برپا ہونے کو انگڑائی لے رہا ہے۔
مذکورہ خدشے سے مفلوج ہوا ذہن سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے فیصلے کو لہٰذا زیر غور لانے کے قابل نہیں رہا۔اس فیصلے کے اتباع میں پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں کے لئے آئندہ 90دنوں میں انتخاب ہوبھی جائیں تو دیوالیہ یا کم از کم مزید مہنگائی اور کسادبازاری کا امکان اپنی جگہ پوری شدت سے برقرا ررہے گا۔مزید مہنگائی اور طویل عرصے تک پھیلی کسادبازاری کے امکانات کے علاوہ ایک اور نکتہ بھی ہے جو ”دفاعی“ تناظر میں سنگین پیغام دے رہا ہے۔
وزارت خزانہ کے ”ذرائع“ سے پاکستانی وزیر خزانہ اور امریکی اہلکار کے مابین ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کی جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں ان میں یہ ”خبر“ بھی موجود ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ ان دنوں ویسا ہی رویہ اپنائے ہوئے ہے جو عالمی معیشت کے نگہبان ادارے نے مئی 1998ءمیں ہماری جانب سے ہوئے ایٹمی دھماکوں کے بعد اختیار کیا تھا۔ پاکستان کو بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اپنی صلاحیت دکھانے سے روکنے کے لئے ان دنوں کے امریکی صدر کلنٹن نے وزیر اعظم نواز شریف کو بارہا ٹیلی فون کئے تھے۔ اس کی درخواست کو رد کردیتے ہوئے پاکستانی جوابی دھماکوں سے بازنہ رہا۔”عالمی برادری“ ہمارے انکار سے ناراض ہوگئی۔ ”برادر ممالک“کے فراہم کردہ سہاروں سے تاہم ہم نے ”براوقت“ کاٹ لیا۔اسحاق ڈار ان دنوں بھی ہمارے وزیر خزانہ تھے۔
آئی ایم ایف کی ”مخاصمت“ کاتذکرہ عمران خان صاحب کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی ٹی وی کیمروں کے روبرو کردیا تھا۔ ”مخاصمت“ کی وجوہات مگر شوکت ترین نے بیان نہیں کی تھیں۔ڈار صاحب بھی انہیں یا تو سمجھنے سے قاصر ہیں یا انہیں برسرعام لانا نہیں چاہ رہے۔ خارجہ امور کا دیرینہ مشاہدہ اگرچہ مجھے یہ سوچنے کو مجبور کررہا ہے کہ امریکہ کے اشاروں کا محتاج آئی ایم ایف پاکستان کو اس کی افغان پالیسی کی وجہ سے مخاصمت کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ ہمارا ایٹمی پروگرام تو جیسے تیسے ہضم کرلیا گیا ہے۔اب مگر ارادہ یہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ”سمارٹ“ بنانے والی کاوشوں کی مزا حمت ہو۔ اقتصادی گرداب میں گھرے پاکستان کو ایسی ”عیاشی“ سے بازرکھا جائے۔ ربّ کریم سے فقط فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ اس ضمن میںمیرے خیالات بالآخر درست ثابت نہ ہوں۔