سکھر (بیورو رپورٹ) سندھ ہائی کورٹ نے قیام امن اور ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے لیے پولیس کو 24 گھنٹے میں لانگ اور شارٹ ٹرم پلان پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ ہوم سیکرٹری اور آئی جی سندھ عدالت میں پیش، انہوں نے کہا کہ سندھ میں اغوا برائے تاوان انڈسٹری بن چکی ہے۔ جس میں سالانہ دو بلین روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس مبین لاکھو پر مشتمل ڈبل بنچ نے سندھ میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے خلاف داخل آئینی پٹیشن کی سماعت کی۔ آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے عدالت کو بتایا کہ سندھ پولیس کو کچے میں اغوا برائے تاوان، سٹریٹ کرائم اور نارکوٹیکس کیسز کا سامنا ہے۔ سندھ پولیس نے اندرون سندھ کے 275 ڈاکوؤں کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر 52 کروڑ روپے کا انعام مقرر کر رکھا ہے۔ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل زاہد مزاری نے سندھ میں ڈاکؤؤں کی جانب سے نہ صرف اب مردوں کو اغوا کیا جا رہا ہے بلکہ مغویان کی بچیوں کو بھی اغوا کر کے انہیں زیادتی کا نشانہ بنا کر ان کی فلمیں بنائی جا رہی ہیں اور ڈارک ویب پر فروخت کی جارہی ہیں جس پر عدالت کے ججز نے افسوس کا اظہار کیا۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے ریمارکس دیئے کہ سندھ میں اغوا برائے تاوان ایک انڈسٹری بن چکی ہے۔ سالانہ دو بلین کا کاروبار ہوتا ہے۔ اسے ختم کیسے کیا جائے، مغوی رہائی کے بعد بتاتا ہے کہ فلاں وزیر کے پی اے نے پیسے دے کر رہائی دلوائی ہے۔ پولیس نشاندہی کرے کہ ڈاکوؤں کی سہولت کاری کون کر رہا ہے، اگر ہم جج نہ ہوتے تو دس دن میں کلیئر کر کے بتاتے کہ ڈاکوؤں کی پشت پناہی کون کر رہا ہے۔ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ خواتین کو ہیومن ٹریفکنگ کر کے عمان بھیجا جا رہا ہے۔ جج جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ اس شرمناک معلومات پر تو ہمارے پاس دو آپشن ہیں کہ یا تو ہم موجود تمام ججز، آئی جی سندھ، ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز استعفے دے کر چلے جائیں یا پھر حکومت پر اعتماد کریں۔ کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف پولیس، رینجرز اور آرمی کے جوائنٹ آپریشن کے بغیر اس کا حل نہیں ہے۔ فوج کی سپورٹ کو آئی جی سندھ کابینہ کو لکھیں اور ہمیں لکھ کر دیا جائے کہ کب تک یہ معاملہ حل ہو گا تاکہ جلد امن و امان قائم ہو گا یا پھر ہمیں اس معاملے پر وزیر اعظم اور وزیر اعلی کو عدالت میں بلانا پڑے گا۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ ہم 24 گھنٹے کا وقت دے رہے ہیں۔
سندھ ہائیکورٹ
سندھ میں ڈٖاکوئوں کے آپریشن پلان آج ورنہ وزیر اعظم کو بلا لینگے : جسٹس پہنور
Mar 03, 2023