حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ہم حضور علیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ ایک معرکے میں شریک ہوئے۔ بہت سے مہاجرین بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ہمارے ایک مہاجر بھائی بڑے خوش طبع تھے۔ انہوںنے ایک انصاری کی پشت پر ہاتھ ماردیا۔ انصاری اس(حرکت)سے سخت غصے میں آگئے نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں اپنے اپنے ساتھیوں کو بلانے لگے۔ انصاری کہنے لگے: اے انصار!میری مددکرو اور مہاجر،مہاجرین کو مدد کیلئے بلانے لگے۔ حضور ﷺ باہر تشریف لائے اورفرمایا : کیا بات ہے، یہ زمانہ جاہلیت کی پکاریں کیوں بلند ہورہی ہیں؟ پھر آپ نے پوچھا : انہیں ہوا کیا ہے؟آپ کو بتایا گیا کہ اس مہاجر نے اس انصاری کی پشت پر ہاتھ مارا ہے۔ آپ نے فرمایا : یہ زمانہ جاہلیت کی پکار چھوڑ دو، یہ بہت بری بات ہے۔ عبداللہ بن ابی نے (اس موقع پر )کہا: یہ (مہاجرین ) ہمارے مقابلے میں متحد ہوئے ہیں۔ جب ہم لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو ہم میں سے جو غالب ہوگا وہ ذلیل لوگوں کو شہر سے نکال دیگا۔ (اس پر) حضرت عمر ؓنے عرض کی: (یا رسول اللہ !ﷺ )آپ اس خبیث کو قتل کیوں نہیں کردیتے ؟ یعنی عبداللہ بن ابی کو ۔ حضور نے فرمایا : (اگر میں اس کو قتل کروا دوں تو)لوگ کہیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اپنے ساتھیوں کو قتل کروادیتے ہیں ۔ (صحیح بخاری ) حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ قریش نے حضور اکرم ﷺسے صلح کی۔ صلح کا معاہدہ تحریر کرنے والوں میں سہیل بن عمرو بھی تھا۔ حضور ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم وجہہ الکریم سے فرمایا: لکھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔(اس پر)سہیل کہنے لگا: جہاں تک بسم اللہ کا تعلق ہے ہم بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نہیں جانتے ۔ تم وہ لکھو جو ہم جانتے ہیں لکھو: ”با سمک اللھم “حضور ﷺنے فرمایا: لکھو : محمد رسول اللہ (ﷺ) کی طرف سے ۔ وہ کہنے لگا: اگر ہمیں یہ یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کی پیروی اختیار کرلیتے، آپ اپنا اوراپنے والد کا نام لکھیں۔حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا : لکھو محمد بن عبداللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے ۔ انہوںنے حضور کے سامنے یہ شرط رکھی کہ تم میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا ہم اس کو واپس نہیں لوٹا ئیں گے لیکن ہم میں سے جو تمہارے پا س آئے گا تم اس کو لوٹا دوگے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم )! کیا ہم اس شرط کو لکھ لیں ؟آپ نے فرمایا : ہاں ۔ ہم میں سے جو ان کی طرف جائے گا تو اللہ اس کو (اپنی رحمت سے)دورکردے گا اوران میں سے جو ہماری طرف آئے گا(اوراس شرط کے مطابق ہم اس کو واپس کردیں گے)اس کے لیے اللہ تعالیٰ وسعت پیدا فرمائے گا اورمشکل سے نکلنے کا راستہ پیدافرمادے گا۔(صحیح مسلم)