کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاﺅں نہیں ہوتے لیکن بھارت نے نہ صرف اس طرح کی مثالوں کو غلط ثابت کردیا بلکہ جھوٹ کو اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر چلنا بھی سکھا دیا ہے۔ یقینا دنیا میں واحد ملک بھارت ہی ہے جس نے برطانوی راج سے آزادی کے بعد اپنی خارجہ پالیسی کی عمارت جھوٹ اور فریب کی بنیادوں پر کھڑی کی اور آج اسی پر استوار ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولے سے انحراف کرتے ہوئے اس کا ریاست جموں و کشمیر پر غاصبانہ ناجائز قبضہ ہے۔ بھارت کا دوسرا بڑا جھوٹ اس کا سیکولر ازم پر مبنی نظام اور جمہوریت کا ڈھونگ ہے جس کی آڑ میںوہاں اقلیتوں پر ہر طرح کے مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کی بات کریں تو وہاں مسلمانوں کی 86 فیصد پر مشتمل آبادی تقسیم ہند سے بہت پہلے 1920 ءسے مہاراجہ ہری سنگھ کے مظالم سے تنگ آکر اپنے حقوق کے لےے سراپا احتجاج تھی۔یہ احتجاج 1931 ءمیں ڈوگرا راج کے خلاف اس وقت تحریک میں بدل گیا جب 13 جولائی کو سری نگر میں ڈوگرا پولیس کے ہاتھوں نماز ظہر کی اذان دینے کی کوشش میں 22 مسلمان شہید ہوگئے۔ یوں اگست 1947 ءسے قبل ہی کشمیریوں نے ڈوگرا راج کے خلاف اپنے مسلسل احتجاج کے ذریعے فیصلہ سنا دیا کہ وہ ہندوﺅں کی غلامی میں رہنے کو تیار نہیں۔ یہ دو قومی نظریہ کی صورت میں برصغیر میں ہندو غلبے کے خلاف مسلمانوں کا جیت کی طرف پہلا قدم تھا۔
قیام پاکستان کا وقت قریب آیا تو برصغیر میں بسنے والا ہر طبقہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کے مسلمان اپنے ہندو راجہ کی مرضی کے برخلاف پاکستان میں شمولیت کو ترجیح دیں گے۔ ویسے بھی کشمیریوں کی زیادہ تر تجارت کا انحصار برطانوی ہند کے مغربی علاقوں میں مسلم اکثریتی آبادی پر تھا، یوں ان کا پاکستان سے لگاﺅ فطری بات تھی۔ ویسے بھی کشمیر سے تعلق رکھنے والا برہمن پنڈت جواہر لال نہرو بخوبی جانتا تھا کہ ڈوگرا راج میں کس طرح مختصر سی آبادی کے باوجود ہندو پنڈتوں نے کشمیر کی معیشت، کشمیریوں کے حقوق پر قبضہ جمایا اور کیسے سود کے چکر میں پھنسا کر مسلمان اکثریتی آبادی کا استحصال کیا۔ اس کے بعد کشمیری مسلمانوں سے بھارت کے لےے خیرسگالی کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف تھا تاہم اس خلیج کو بھرنے کے لیے سیکولر جےسے جھوٹ کا چورن بیچا گیا۔ بھارت میں بہت سے مسلمانوں کی طرح سکھوں نے بھی سیکولر ازم پر یقین کیا اور آج تک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ آزادی کے چند ہفتوں بعد جواہر لال نہرو کے حکم پر بھارتی فوج کے ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کی کوشش ہندو برہمن کے اس مزاج کا حصہ تھی جسے عرف عام میں دھوکا دہی اور منافقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اپنے اس اقدام سے بھارت نے کشمیریوں سے ان کا جمہوری حق چھین کر انھیں عملاً غلام بنانے کی بنیاد رکھی۔ نومولود پاکستان نے اپنی داخلی انتظامی اور معاشی مشکلات کے باوجود جارح بھارتی فوج کا راستہ روکا اور ایک تہائی کشمیر بھارتی فوج کے تسلط میں جانے سے بچا لیا۔ ایک سال ایک ماہ تک جاری رہنے والی اس جنگ میں باقی ماندہ ریاست ہاتھ سے جانے اور بھارتی فوج کو مکمل شکست کی ہزیمت سے بچانے کے لیے پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے مغربی دوست ممالک کے تعاون سے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس کی التجا کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر یوں کو خودارادیت کا حق دینے کی شرط پر جنگ بندی کی قرار داد قبول کرلی گئی ۔
بھارتی جھوٹ پر مبنی خارجہ پالیسی میں پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کے لیے کشمیریوں کو حق رائے دیہی دینے کی قرار داد پر بھارتی دستخط بھی بہت بڑا دھوکا تھا جو بھارتی حکمرانوں نے عالمی فورم پر نہ صرف کشمیر یوں بلکہ پوری دنیا کو دیا اور یہ جھوٹ گزشتہ 75برسوں سے بھارت کے چہرے پر کالک کے طور پر موجود ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بھارت کو نہ تو اپنے سیکولرازم نظا م کے حوالے سے بولے گئے جھوٹ پر کوئی شرمندگی ہے نہ ہی وہ مقبوضہ کشمیر قیدی بنائے گئے 80لاکھ کشمیریوں کو ان کا جمہوری حق دینے کو تیار ہے بلکہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت اور وہاں سے پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات کو بھارتی حکمرانوں نے داخلی سیاست میں اپنی کامیابی کا ذریعہ بنا رکھا ہے ۔ 2019ءکے انتخابات میں جیت کے لیے 16فروری کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کا معروف فالس فلیگ آپریشن اس کی زندہ مثال ہے جس میں بھارتی فوج کے پچاس سے زیادہ جوانوں کی بلی چڑھائی گئی۔ بھارتی فوج کے قافلے پر کیے گئے اس خودساختہ خودکش حملے کا الزام پاک فوج اور آئی ایس آئی پر لگاتے ہوئے بھارت میں الیکٹرانک میڈیا پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان برپا کردیا گیا ۔ یہ پہلا موقع تھا جب بھارتی اپوزیشن اور ہندو توا کے اثرسے آزاد بھارتی صحافیوں نے پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈے کونہ صرف مسترد کردیا بلکہ اپنی حکومت سے پاکستان پر لگائے گئے الزامات کے ثبوت بھی مانگ لیے۔
اپنے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے نریندر مودی سرکار نے انڈین ایئر فورس کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور 26فروری کو صبح کا سورج طلوع ہونے سے 4گھنٹے قبل بھارتی طیاروں نے لائن آف کنٹرول کی فضائی خلاف ورزی کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے علاقے بالاکوٹ کے ویرانے میں چار بم گرائے اور واپس فرار ہوگئے ۔ صبح ہوتے ہی بھارتی ٹی وی چینلوں نے آسمان سرپر اٹھا لیا کہ بھارتی طیاروں نے بالاکوٹ میں دہشت گردوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا اور 350دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ بھارتی پروپیگنڈا اس قدر زور دار تھا جس نے ہر پاکستانی کو وقتی طور پر پریشان کر دیا لیکن بالاکوٹ کے مقامی نوجوانوں نے متاثرہ مقام پر پہنچ کرا پنے موبائل فون کیمروں کے ذریعے بھارتی جھوٹ کا پردہ فاش کرنے میں دیر نہیں لگائی چند ٹوٹی ہوئی ٹہنیاں زمین سے اکھڑا ہوا درخت اور ایک گڑھا اس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے بھارت نے حسب معمول جھوٹ کا سہارا لیا۔اس پر ندامت محسوس کرنے کی بجائے بھارت اپنے جھوٹ پر ڈٹا رہا۔ جواباًڈی جی آئی ایس پی آر نے مختصر الفاظ میں بھارت کو بتا دیا کہ اب پاکستان سرپرائز دیگا جس کے لیے جگہ اور وقت کا انتخاب پاکستان خود کرے گا۔ یہ بیان 26فروری کی شام کو دیا گیا اور پھر 27فروری کو پاک فضا ئیہ نے بھارت کو وہ سرپرائز دیا جوبھارت کے 2جنگی طیاروں کی تباہی، ایک بھارتی ہواباز کی آزاد کشمیر میں مقامی آبادی کے ہاتھوں درگت کے بعد گرفتاری اور بدحواسی کے عالم میں بھارتیوں کی طرف سے اپنے ہی آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹر کا مار گرانے کی صورت میں سامنے آیا جس میں سوار بھارتی فضائیہ کے 6 اہم افسران ہیلی کاپٹر کے پائلٹوں سمیت مارے گئے۔ پوری دنیا نے بالاکوٹ پر حملے کے حوالے سے بھارتی دعوے کو مسترد کردیا اور آج تک اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں لیکن نریندر مودی سرکار اور بھارتی میڈیا یہ کہتے ہوئے اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ’جھوٹ کے پاﺅں ہوتے ہیں‘ ۔