جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا
0301-4843429
عبدالناصرترمذی
حج اسلام کابنیادی رکن اورایک عظیم الشان عاشقانہ عبادت ہے،جسے ہرصاحبِ استطاعت عاقل،بالغ ،مسلمان مردوعورت پرفرض کیاگیا ہے، حج کی استطاعت رکھنے والے کااِیمان حجِ مبرور(یعنی جس میں حاجی سے کوئی گناہ سرزدنہ ہو)کے بغیرکامل نہیں ہوتا۔ارشادباری تعالیٰ ہے :
و لِلّٰہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔(آل عمران:۹۷) اور لوگوں میں جولوگ اس(بیت اللہ) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں،اُن پراللہ کے لیے اس گھر کاحج کرنافرض ہے۔
یعنی جس شخص کے پاس سفرِمکہ مکرمہ اوروہاں کے قیام وطعام کے لیے متوسط درجہ کے ضروری اخراجات موجودہوں،اورپیچھے گھروالوں کے نان نفقہ کا بھی مناسب انتظام ہو توجس وقت بھی کسی شخص کے پاس اتنی نقدرقم، یااتنی مالیت کازیور،یافوری ضرورت سے زائداِتنی قیمت کا سامان،یامالِ تجارت ،یارہائشی مکان کے علاوہ کوئی زائدمکان یاپلاٹ وغیرہ ہو جومذکورہ بالا ضروریات کے لیے کافی ہوتواُس شخص پرحج فرض ہوجاتا ہے۔احادیث طیبہ میں حج کے بے شمارفضائل اورتاکیدات واردہوئی ہیں۔ حضرت جابرؓسے روایت ہے کہ نبی کریمؐنے فرمایا:ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں کئے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالیٰ کودوسرے تمام ایام میں کئے گئے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔ عرض کیا گیا:یا رسول اللہ! کیایہ دس دن اللہ کے راستے میں جہادکرنے سے بھی افضل ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں!ان ایام کاعمل جہادفی سبیل اللہ سے بھی افضل ہے۔اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی دن عرفہ کے دن سے افضل نہیں۔اِس دن اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اوراپنے بندوں کی وجہ سے فرشتوں پرفخرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :میرے بندوں کی طرف دیکھوجوہراونچی نیچی جگہ سے قربانی کرتے ہوئے پراگندہ بال آئے ہیں ،صرف میری رحمت کے طلبگار ہیں،اور عذاب سے پناہ مانگتے ہیں۔لوگوں کوسب سے زیادہ عرفہ کے دن جہنم سے آزادکیا جاتا ہے۔ (ابن حبان،ابویعلی)
نبی کریم ؐنے ارشادفرمایاکہ:جس شخص نے خالص اللہ کے لیے حج کیااوراس میں فحش گوئی نہ کی اورنہ گناہ کیاتووہ شخص (حج کے بعد)اُس دن کی مانند لوٹتا ہے جس دن اس کی ماں نے اس کوجناتھا۔(متفق علیہ)
حضرت ابوہریرہ ؒفرماتے ہیں نبی کریمؐسے سوال کیاگیاکہ:سب سے افضل عمل کونساہے؟آپ ؐنے فرمایااللہ اوراس کے رسول پرایمان لانا۔ سوال کیا گیا اس کے بعد؟آپ ؐنے فرمایا:اللہ کے راستے میںجہادکرنا،سوال کیا گیا اس کے بعد؟ آپ ؐنے فرمایا:حج مبرور۔(بخاری)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓنے نبی کریمؐسے پوچھا کہ:یا رسول اللہ ہم جہاد کو بہت بڑی عبادت سمجھتے ہیں تو کیا ہم لوگ جہاد نہ کریں؟ آپ ؐنے فرمایا : نہیں بلکہ عمدہ جہاد حج مبرور ہے۔(بخاری)نماز،روزہ اورزکوٰۃ کی طرح حج کی ادائیگی بھی تمام دنیاوی ضروریات سے مقدم اورہرکسی پرانفرادی طورپرفرض ہے،لہٰذااگربیٹے پرحج فرض ہوجائے اور والدین پرفرض نہ ہوتو بیٹے کے لیے پہلے والدین کوحج کرانے کے ارادے سے حج میں تاخیرکرناجائزنہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں عام طورپراِس اہم ترین عبادت کی انجام دہی کو بڑھاپے تک مؤخرکردیاجاتاہے،حج فرض ہوجانے کے باوجودمکان کی تعمیر، بچوں کی شادی اوراس جیسی دیگر ضروریات کوحج کی ادئیگی پرترجیح دی جاتی ہے، حالانکہ حج فرض ہونے کے بعداسے بغیرکسی شدیدمجبوری کے مؤخرکرنے سے انسان نہ صرف سخت گنہگار ہوتا ہے،بلکہ فقہاء کرام نے فریضہ حج کی ادائیگی میں سالہاسال تک تاخیرکرنے والے کو فاسق اورمردودالشہادۃقراردے کراس کی گواہی قبول کرنے سے بھی منع فرمایاہے، لہٰذاجن لوگوں پرحج فرض ہواُن کے لیے شرعاًحج کی درخواست جمع کراناضروری ہے، اگر قرعہ اندازی میںنام نہ آسکے توجب تک یہ درخواست دیتے رہیں گے ان کی شرعی ذمہ داری پوری ہوتی رہے گی،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے دربارکی حاضری کے لیے قبول فرمالیں۔
واضح رہے کہ سرکاری حج اسکیم کی قرعہ اندازی میں ناکام ہونے والے حضرات اگرپرائیویٹ کوٹہ میں حج پرجانے کی استطاعت رکھتے ہوں تواُن کے لیے اِس ذریعہ سے حج کے لیے جاناضروری ہے ۔اَب چونکہ جلدہی حج درخواستوں کی وصولی کاعمل شروع ہونے والاہے،اِس لیے تمام صاحب ِحیثیت مسلمانوںکو اپنی مالی حیثیت کابغورجائزہ لے کر علماء کرام سے مسئلہ دریافت کرناچاہئے،ایسانہ ہوکہ اُن پرحج فرض ہوچکاہواوروہ اس سے لاعلم ہوں،کیونکہ حج فرض ہونے کے بعداس کی ادائیگی میںٹال مٹول کرنے والوں کے لیے نبی کریمؐ نے سخت وعیدات ارشادفرمائی ہیں۔
حضرت ابوامامہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐنے فرمایا:جس شخص کے لیے کوئی واقعی مجبوری حج سے روکنے والی نہ ہو،ظالم بادشا ہ کی طرف سے رکاوٹ نہ ہو یاایساشدیدمرض نہ ہوجوحج سے روک دے ،پھر(بھی باوجودحج فرض ہونے کے)وہ حج نہ کرے تو چاہے یہودی ہوکرمرے یانصرانی ہوکر۔ (دارمی)
رسول اللہ انے ارشادفرمایاکہ :جوشخص حج کاارادہ رکھتاہو(یعنی اس پرحج فرض ہوجائے)تواسے چاہئے کہ جلدی کرے۔(ابوداود)
یعنی حج فرض ہونے کے بعدپہلے ہی سال جانا(درخواست وغیرہ دینا)ضروری ہے ،اگرحج کے لیے نہ گیا(یعنی کوشش نہ کی )توحج میں تاخیرکرنے کا گناہ ہوگا،اس لیے جن حضرات پرحج فرض ہو،انہیں چاہئے کہ جلدی حج کرلیں،بالخصوص جب بڑھاپاآجائے اور موت کے بادل سر پرمنڈلانے لگیںتو دنیوی مشاغل اور مصروفیات کابہانہ بناکر اس میں تاخیرنہ کریں جیساکہ اکثرلوگ دنیاداری اوراہل وعیال کی ضروریات کی وجہ سے حج کرنے میں سستی کرتے ہیں اور حج جیسامقدس فریضہ اداکئے بغیرہی اِس دنیاسے رخصت ہوجاتے ہیں،یہ بہت بڑی محرومی اورسخت گناہ ہے ۔
جن حضرات پرحج فرض ہے لیکن وہ بیماری یابڑھاپے وغیرہ کی وجہ سے سفرنہیں کرسکتے اورنہ ہی آئندہ صحت کی امیدہے ،نیزکسی ساتھ جانے والے کا بھی انتظام نہ ہوتو اُن کے لیے حج بدل (یعنی اپنی جگہ کسی اورکوبھیج کرحج کرانا)ضروری ہے،اگرحجِ بدل نہیں کرایاتوحجِ بدل کی وصیت کرناضروری ہے۔
جناب رسول اللہ ا نے حج کرنے والے سے گناہوں کے ساتھ ساتھ فقروفاقہ اورغربت کے ختم ہونے کی بشارت بھی ارشادفرمائی ہے۔
حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاًروایت ہے کہ :حج کرنے والاکبھی فقیرنہیں ہوتا۔(الترغیب والترہیب)
نیزنبی کریم اکاارشادہے کہ :حج اورعمرہ یکے بعددیگرے کیاکرو،کیونکہ وہ دونوں غربت اورگناہوں کواس طرح دورکردیتے ہیں جیساکہ بھٹی لوہے اورسونے چاندی کے میل کودورکردیتی ہے،اورحج مبرور کا بدلہ جنت کے سواکچھ نہیں۔(ترمذی)
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کوبارباربیت اللہ کا مقبول ومبرورحج نصیب فرمائیں، اَللّٰھم انانسئلک حجامبروراً وعمرۃً متقبلۃ وسعیًامشکوراًوتجارۃً لن تبور،آمین۔فقط
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛