عمر نواز برکاتی
ہندوستان 1920ء میں جب مختلف تحریکوں کی آماجگاہ بناہوا تھا۔ تحریک خلافت اپنے عروج پر تھی پھر اس کے ضمن میں تحریک ترک موالات، ترک ذبیحہ گاؤ اور ہندو مسلم اتحاد کی تحریکیں اٹھیں جس کے ذریعے ہندو لیڈروں نے نہایت چالاکی اور ہوشیاری سے مسلمانوں پر اپنا اثر و رسوخ قائم کیا، گاندھی اور نہرو کا موقف تھا کہ ہندوستان کی ساری آبادی ایک قوم ہے اور گاندھی کی سیاسی شعبدہ بازی نے عوام تو عوام جید علماء کو بھی اپنے دام میں پھنسا لیا اور ہندو مسلم اتحاد کے اس جذباتی عمل نے وحدت ادیان کے نظریے کو بھی تقویت پہنچائی۔اس پر آشوب دور میں جن نفوس قدسیہ نے حق و صداقت کی شمع روشن کیے رکھی ان میں بانی دار العلوم حزب الاحناف سید دیدار علی شاہ الوری کا نام سر فہرست ہے۔آپ 1273ہجری بمطابق 1856ء پیر کے دن ریاست الور کے ایک ممتاز علمی خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا شجرہ نسب جنید زماں سید جلال الدین سرخ پوش بخاری سے ہوتا ہوا امام علی بن موسی الرضا مشہدی سے جا ملتا ہے۔آ پ کا خاندان ابتداء ہی سے زہد و تقویٰ اور بزرگی میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ آپ کے والد مولانا صوفی سید نجف علی رضوی جید عالم اور جامع شریعت و طریقت بزرگ تھے۔ حضرت محدث الوری اپنے عم مکرم حضرت مولانا سید نثار علی رضوی مشہدی کی دعا سے پیدا ہوئے جو کہ جید عالم دین اور سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے عظیم روحانی پیشوا تھے۔
حضرت محدث الوری کے والد محترم حضرت سید نجف علی شاہ صاحب اولاد سے محروم تھے۔ ایک دن آپ کی زوجہ محترمہ نے عرض کی۔ سب کے کام کرتے ہوہماری مراد کب پوری ہو گی۔فرمایا: اب کے جب چلہ سے فارغ ہوں تو بات کرناچنانچہ آپ اکتالیس روز اپنے مخصوص حجرہ میں چلہ کش رہے۔ دن کو روزہ رکھتے، نمک، پانی اور باجرے کی روٹی سے افطار فرماتے۔ نماز پنجگانہ کے لئے مسجد تشریف لاتے،نہ کسی سے ملاقات کرتے اور نہ کلام کرتے۔ یوں اکتالیس روزعبادت و ریاضت میں گزارنے کے بعد فرمایا:" بیٹا پیدا ہو گا دین کا چراغ ہو گا۔ دیدا ر علی نام رکھنا "۔
مولانا سید دیدار علی شاہ کا بچپن اپنے عم مکرم قطب وقت سید نثار علی رضوی مشہدی کی آغوش شفقت میں گزرا۔آپ نے صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں الور میں مولا قمر الدین سے پڑھیں، مولا نا کرا مت اللہ خاں سے دہلی میں درسی کتابوں اور دورہ حدیث کی تکمیل کی، فقہ و منطق کی تحصیل مولانا ارشاد حسین رامپوری سے کی جو کہ تمام علوم اسلامیہ تفسیر و حدیث اور فقہ کے امام اور تقوی و طہارت میں یکتا تھے۔ ہندوستان کے جید علماء نے آپ سے حدیث کا درس لیا۔ اس کے بعد آپ نے مولانا عبد العلی رام پوری (جو امام منطق تھے) سے معقولات کا درس لیا۔ درس نظامی کی تکمیل کے بعد آپ نے شیخ الحدیث مولانا احمد علی محدث سہارنپوری سے کتب حدیث کی سماعت کی ان دنوں آپ کے ہم سبق پیر جماعت علی شاہ، مولانا وصی احمد محدث سورتی اور پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی تھے۔اس کے علاوہ مولانا سید دیدار علی شاہ کو حضرت مولانا عبد الغنی مہاجر مدنی(جنہیں چالیس اکابر علماء مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے حدیث و فقہ کی اجازت تھی) سے اور امام فن قرأت عبد الرحمن صاحب پانی پتی سے بھی قرآن مجید و حدیث و فقہ کی روایت کی اجازت حاصل تھی۔امام المحدثین سید دیدار علی شاہ مشہدی تکمیل علوم کے بعد سہارنپور سے الور تشریف لائے تو سید شاہ نثار علی رضوی نے آپ کو اپنے صحبت میں رکھ کر منازل سلوک طے کرائے اور علوم روحانیہ سے سرفراز کرتے ہوئے خلعت خلافت عطاء فرمائی بعد ازاں محدث الوری مزید روحانی فیوض و برکات کے حصول کے لئے انبالہ میں سائیں توکل شاہ انبالوی کی خدمت میں پہنچے اور کامل دو سال آپ کی زیر تربیت ریاضت و مجاہدہ میں مصروف رہے۔ حضرت انبالوی نے آپ کو سلاسل اولیاء کی اجازت و خلعت خلافت عطاء فرماتے ہوئے فرمایا۔ اب گنج مراد آباد جاؤ۔ وہاں تمہارا حصہ تمہارے لئے چشم براہ ہے۔ گنج مراد آبادان دنوں مولانا فضل رحمن صدیقی گنج مرا دآبادی کے وجود مسعود کی وجہ سے انوار ِ روحانی کا مرکز بنا ہوا تھا۔ بڑے بڑے علماء و مشائخ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر فیض روحانی حاصل کرتے تھے جس کا اندازا اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود امام اہل سنت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا محدث بریلوی بھی مرا دآباد مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی سے ملاقات اور فیض و برکت کے لئے حاضر ہوئے۔ مولانا شاہ فضل رحمن گنج مرا دآبادی حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے شاگرد اور قطب الاقطاب حضرت محمد آفاق دہلوی کے مرید اور خلیفہ تھے۔
امام المحدثین سائیں توکل شاہ انبالوی کی ہدایت پر گنج مراد آباد حاضر ہوئے اور قطب الاقطاب مولانا فضل رحمن گنج مرا دآبادی کی خدمت میں رہ کر سلوک کی منزلیں طے کرتے رہے۔ سلسلہ عالیہ قادریہ نقشبندیہ میں آپ سے بیعت ہوئے اور حدیث کی اس منفرد سند کے حصول کا شرف حاصل کیا جو صرف ایک واسطے سے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور صرف دو واسطوں سے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک پہنچتی ہے۔ حضرت محدث الوری فرمایا کرتے تھے کہ حضرت قطب الاقطاب گنج مرا دآبادی کی مجھ پر خاص نظر کرم تھی اور مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ شیخ نے اپنے صاحبزادے حضرت مولانا شمس الدین احمد میاں نقشبندی کے ساتھ مجھے حدیث کا درس دیا اور مجھے تمام اعمال و اذکار سلاسل اولیاء اللہ کی اجازت اور خلافت عطاء فرمائی۔اس کے علاوہ امام المحدثین کو مجددسلسلہ چشتیہ اشرفیہ مولانا سید علی حسین اشرفی الجیلانی کچھوچھوی سے سلسلہ اشرفیہ اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی کے پیر خانے سے سید اولاد رسول محمد میاں قادری برکاتی مارہروی سے سلسلہ قادریہ برکاتیہ سمیت خود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی سے سلسلہ قادریہ رضویہ کی خلافت حاصل تھی۔
آپ نے 22رجب المرجب 1354ہجری بمطابق 20 اکتوبر 1935 داعی اجل کو اس وقت لبیک کہا جب نماز عصر کے لئے نیت باندھ چکے تھے۔ اندرون دہلی دروازے پرانا حزب الاحناف میں آپ کی آرام گاہ مرجع خاص و عام ہے جہاں پر ہر سال 22 رجب المرجب کوصاحبزادہ پیر سید نثار اشرف رضوی کی زیر صدارت آپ کا عرس عقیدت و احترام کے ساتھ آج بھی منایا جا تا ہے اورآج بھی آپ کا آستانہ علمی و روحانی فیض کا مرکز ہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛