صبرو آزمائش اور میانہ وری

مہنگائی کے دور میں اخراجات پر کنٹرول…کس طرح کریں؟??

مولانا حافظ زبیر حسن
’’حضرت عبداللہ بن عمر ؓے روایت ہے فرمایا رسول اللہؐ نے اخراجات میں میانہ روی اختیار کرنا نصف معیشت (زندگی گزارنے کا طریقہ) ہے۔‘‘(بیہقی)اچھی نیت سے، نیک مقصد کے لیے دنیا کی دولت حلال ذریعہ سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ بہت بڑی نیکی ہے۔ رسول اللہؐنے فرمایا جو شخص دنیا کی دولت حلال طریقے سے حاصل کرے اور اس مقصد کے لیے حاصل کرے کہ دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے دوسروں سے مانگنے سے بچار ہے‘ اپنے اہل وعیال کے لیے روزی اور آرام وآسائش کا سامان مہیا کرسکے اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی احسان اور اچھا سلوک کرسکے تو ایسا شخص قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس شان کے ساتھ حاضر ہو گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہوا اور روشن ہوگا۔ اس کے بعد رسول اللہ ؐنے فرمایا جو شخص دنیا کی دولت حلال طریقے ہی سے حاصل کرے لیکن اس کا مقصد یہ ہو کہ وہ بہت بڑا مالدار ہوجائے اور اس دولت مندی کی وجہ سے دوسروں کے مقابلہ میں اپنی شان اونچی کرسکے اور لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کے لیے دولت حاصل کرے ترجمہ: ایسا شخص قیامت کے روز اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوں گے۔
مال ودولت کی حرص عام انسانوں کی فطرت میں داخل ہوتی ہے‘ اگر دولت سے انکا گھر تو کیا جنگل کے جنگل اور صحراء بھی بھرے ہوئے ہوں تب بھی اس انسان کادل قناعت نہیں کرتا۔ یہ انسان اس میں اضافہ اور زیادتی چاہتاہے زندگی کے آخری سانس تک اس کی ہوس کا یہی حال رہتا ہے۔ عبداللہ بن عباس ؓ رسول اللہؐکا ارشاد  پاک نقل فرماتے ہیں۔
ترجمہ:’’اگر آدمی کے پاس مال سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تو یہ تیسری بھی چاہے گا اور آدمی کا پیٹ کوئی چیز بھی نہیں بھرسکتی مگر قبر کی مٹی۔‘‘دولت کی ہوس جہاں انسان کے لیے دنیا کی بربادی کا نشان ہے وہاں آخرت کی ناکامی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ؐ نے جواحکامات دولت کیحصول اور خرچ کے بارے میں عطا فرمائے ہیں ان کا تعلق اعتدال اور میانہ روی سے ہے۔ ارشاد نبوی ہے:جومیانہ روی اختیار کرتا ہے وہ محتاج نہیں ہوتا۔ لیکن انسان دولت کو حقوق پورا کرنے میں بھی صرف نہ کرے تو یہ بخل ہے جسے آپ ؐ نے منع فرمایا ہے۔ اگر انسان بے جا خرچ کرنا شروع کردے تو اسے اسراف اور فضول خرچی کہتے ہیں،اللہ رب العزت نے اسے بھی منع فرمایا۔
معلوم ہوا کہ اگر مناسب جگہ بھی نہ خرچ کیاجائے تو بخل ہے اور اگر بے جا خرچ کیاجائے تو فضول خرچی ہے،صحیح طریقہ  میانہ روی ہے۔
علماء کرام نے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی وضاحت فرمائی ہے کہ اگر اللہ کے بتائے ہوئے حقوق پر خرچ کیاتو یہ اللہ کے لیے خرچ کیا حتیٰ کہ اپنی جان پرا پنے گھر والوں پر اپنے بچوں پر خرچ کرنا بھی اللہ ہی کی خاطر ہوتو وہ بھی عبادت ہے۔انسان کو کس حد تک خرچ کرنا چاہئے وہ حدود اللہ اور اس کے رسولؐنے متعین فرمادی ہیں۔ترجمہ:’’ کھاؤ، پیو اور خیرات کرو، اور کپڑے بنا کر پہنو بشرطیکہ اسراف اور نیت میں فخر اور تکبر نہ ہو۔‘‘
رسول اللہؐ بذات خود عام طور پر معمولی سوتی قسم کے کپڑے پہنتے تھے۔ بسااوقات ان میں کئی کئی پیوند بھی ہوتے تھے لیکن جب وسعت ہوئی تو دوسرے ملکوں اور دوسرے علاقوں کے بنے ہوئے قیمتی جبے بھی پہن لیتے تھے۔ کئی کئی روز فاقہ سے بھی گزرتے تھے‘ دو دو ماہ تک آپ کے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی اور جب کھانے میسر ہوتے تو عمدہ کھانے بھی تناول فرمالیتے۔ 
خرچ کرنے کا صحیح اور اسلامی انداز واضح ہونے کے بعد آج عام معاشرہ کی طرف دیکھنا ہوگا۔ جہاں یہ انسان عام شادی بیاہ رچاتا ہے‘ ہزاروں روپے آتشبازی کی نذر کردیتا ہے‘ گھروں اور دیواروں کو روشنیوں سے جگمگانے پر سینکڑوں روپے بہادیتا ہے مہمانوں سے کئی گنازیادہ کھانا پکاتاہے۔ یہ تمام کام یہ انسان صرف اپنی ناک اپنی عزت کی خاطر کرتا ہے یہی وہ غلط انداز ہے جہاں ایک لڑکی کی شادی کرتا ہے اتنی ہی رقم میں عمدہ طریقے سے دس لڑکیوں کی شادی کرسکتا تھا۔ گھر میں چند بلبوں اور ٹیوب لائٹوں سے گذارا ہوسکتا ہے‘ یہ انسان ایک کمرے میں کئی بلب روشن کرتا ہے۔  ہر کمرے میں ائرکنڈیشنڈ چل رہا ہوتاہے یہ پیسے کا ضیاع ہے۔
اسلام نے خرچ کرنے کی جگہیں بھی بالکل واضح طور پر سامنے رکھی ہیں۔ اپنے گھر والوں پر اپنی ذات پر ہمسایوں پر رشتہ داروں پر خرچ کیجئے۔ بقدر ضرورت اور بقدر حق اور زکوٰۃ وصدقات جو اللہ نے بندہ پر حکما جاری فرمائے ہیں ان کے لئے خدائے برتر نے جگہیں مقرر فرمادی ہیں‘ جن میں غرباء مساکین، قرض دار، مسافر وغیرہ شامل ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں سفید پوش جو کسی بھی حالت میں مانگنا گوارا نہیں کرتے، ایسے لوگوں کو ہدیے اور تحفوں اور اشیاء  ضرورت کو پیش کرکے ان پر خرچ کیاجاسکتا ہے۔اللہ رب العزت ہمیں رزق حلال حاصل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ای پیپر دی نیشن