rz2-5
rameenhammadahmad@gmail.com
حرف حق… اسماء تاثیر
پاکستان نے ان گنت مایہ ناز سپوت پیدا کیے جن میں علامہ اقبال سے لیکر ڈاکٹر عبدالقدیر تک، پاک وطن کا نام رکھنے والے چودھری رحمت علی مرحوم سے لے کر بے شمار قطار در قطار شرف و عظمت کے مینار اس مٹی میں تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد سر بلند ہوتے رہے ہیں اور ہر شعبہ زندگی میں کھیل کے میدان سے قلم کے میدان علم کے میدان اور میدان کارزار میں ہر کسی نے شاندار کارنامے انجام دیے ہرکوئی اپنے اپنے حصے کا کام کرکے گیا جن کے نام تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن گئے۔
اور تاریخ وطن کے صفحات جو سیاہی میں ڈوبے ہوئے ہیں ہیں جہاں آکر پڑھنے والوں کی آنکھیں نابینا ہوجاتی ہیں اور دل میں غم کے بگولے اٹھنے لگتے ہیں ہونٹوں پر آہیں ابلنے لگتی ہیں ایسے کردار بھی اپنی سیاہ بختی کے لبادے میں چھپے ہوئے نظر آتے ہیں جنہیں وقت نے بے حجاب کر دیا اور وہ قوم کی نظروں میں قابل نفرت بن کر تاریخ کا حصہ بن گئے تا قیامت ہر کردار وطن اور اہل وطن کے لیے باعث ندامت باعث ہزیمت رہیں گے اور ان کے کردار سے جو نقصان پاک وطن اور اہل وطن کو پہنچا نا تو اس کی تلافی ہو سکے گی اور نہ اسے فراموش کیا جا سکے گا لیکن ہمارے عظیم الشان دین اسلام نے ان کی بداعمالیوں اور سزا کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے کر بندوں کو منع کردیا کہ وہ جو کچھ کر کے چلے گئے وہ آخرت کی عدالت میں جواب دہ ہونگے ان کے بارے میں نہ بری زبان استعمال کی جائے نہ قلم کو چلایا جائے البتہ جو زندہ ہیں ان کا محاسبہ اور قانونی کاروائی کرکے جزا و سزا کا سلسلہ نافذ کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی پاک وطن کے تقدس اور استحکام سے کھیلنے کی جرأت نہ کرے۔
افسوس صد افسوس قائد وطن محمد علی جناح کے گمنام قاتلوں سے لے کر آج تک کسی مجرم کو پکڑا گیا نہ عدالت کے کٹہرے میں لایا گیا یہاں تک کہ آج مجرم ہی اس وطن کے محافظ اور حاکم کہلانے لگے کھرے کھوٹے کی تمیز ختم ہو گئی عوام الناس بھیڑ بکریوں کی طرح خالی خولی تقریروں کی بنیاد پر تقسیم ہو گئے آٹے کا تھیلا اور گھی کا پیکٹ ان کے ایمان کا ترازو بن گیا اور پھر وہ ملک جسے لاشوں کے پہاڑوں، خون اور آگ کے دریاؤں اور پامال عصمتوں کی انمول قیمت پر بنایا گیا تھا آج ایک ایسے مردار کی حالت کو پہنچ چکا ہے جس کے جسم سے چیلیں اور گدھ گوشت نوچ نوچ کر کھا چکے ہیں اور اب بچی کچی بوسیدہ ہڈیوں پر خون خرابہ ہو رہا ہے۔ میرا قلم اپنے موضوع سے شاید دور نکل گیا ہے اصل میں ماہ فروری میں پاکستان کی 3 نمایاں شخصیات یکے بعد دیگرے دار فانی سے کوچ کر گئیں جن میں امجد اسلام امجد ضیائŸحی الدین اور جنرل پرویز مشرف شامل ہیں
انا للہ وانا الیہ راجعون°
"بے شک ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.امجد اسلام امجد پاکستان کے عظیم شاعر تھے جن کی شاعری میں بے مثال اور لازوال تخلیقات ہمارا ادبی سرمایہ ہیں شعر و ادب کی دنیا میں انہوں نے قابل قدر خدمات سر انجام دیں
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ
جو نہیں ملا اسے بھول جا
محبت پر ایک نظم جو اپنے لکھے جانے سے اب تک ہر خاص و عام کو ازبر
سمندروں کے سفر پہ نکلو
تو اس جزیرے پہ بھی اترنا
یا پھر….
ہر پل دھیان میں بسنے والے لوگ افسانے ہوجاتے ہیں
آنکھیں بوڑھی ہو جاتی ہیں خواب پرانے ہوجاتے ہیں
اردو ادب اور شعر کی دنیا میں ایک روشن اور نئی جہت سے کارہائے نمایاں انجام دینے والے صداکار ضیائ محی الدین اپنے میدان کے منفرد کھلاڑی تھے
انھوں نے شکوہ، جواب شکوہ کلام اقبال کو اس انداز میں پڑھا اسکے علاؤہ بھی اقبال کے کلام سے چیدہ چیدہ نظمیں نئی نسل میں اقبالیات سے دلچسپی اور محبت پیدا کی اس سے پہلے لوگ کلام اقبال کی فارسی تشبیہات، مشکل استعارے اور فکر کی گہرائی کی وجہ سے مائل نہیں ہوتے تھے بہت کم لوگ علامہ اقبال کو پڑھتے تھے یا جو سکول و کالجز کے نصاب میں تھوڑا بہت شامل تھا اسے ضروری سمجھ کر کر لیتے تھے لیکن ضیائ محی الدین کی صداکاری نے اردو ادب کا ذوق بڑھانے کے لئے اور نئی نسل میں خاص طور پر ادبی اور شعری معیار کو بلند کرنے میں بہت بڑا اور کلیدی کردار ادا کیا اور سوشل میڈیا پر اقبال کی بہت سی نظمیں مقبول عام ہوئیں جنھیں فی البدیہہ اور ترنم سے مختلف آوازوں میں پڑھا گیا
پاکستان کے شعبہ صداکاری یعنی اپنی آواز کی سحر کاری اور جادو سے عوام کے اندر ذوق لطیف اور جمالیاتی حس پیدا کرنے میں نمایاں اور قابل تحسین خدمات پیش کیں جنہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا یہ پاکستان کا خواب دیکھنے والے عظیم شاعر اور خود پاکستان سے محبت کا ایک عہد تھا جو گزر گیا حق مغفرت کرے آمین
یہ سنہری کردار تاریخ پاکستان کے روشن صفحات میں ہمیشہ زندہ رہے گا
فیض کی تنہائی اور دوسری نظمیں پڑھتا
چلی ہے رسم کہ کوئی نا سر اٹھا کے چلے
اور زبان سے نکلے وہ اشعار جو آج اس کے جانے کی ترجمانی کرتے ہیں
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
تیسری بڑی شخصیت بلکہ ترتیب کے اعتبار سے گیارہ سال تک پاکستان کے آرمی چیف اور صدر دو بڑے عہدوں پر فائز ہے اس دوران انھوں نے کارگل کی جنگ بھی لڑی جس کے بارے میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے اگر یہ جنگ چند دن اور جاری رہتی تو کشمیر کو پاکستان فتح کر لیتا لیکن نواز شریف صاحب جو اس وقت وزیراعظم تھے انہوں نے یہ جنگ روک کر بازی پلٹ دی جرنل صاحب کی شخصیت پاکستانی عوام کے اندر متنازعہ ہے اس حوالے سے سیاستدانوں، حلقہ صحافت اور عوام الناس کا اپنا اپنا نکتہ نظر ہے اور اپنی اپنی سوچ ہے لیکن دو باتیں جو ان کی شخصیت کے پاکستان سے تعلق اور وفاداری کو پرکھنے کے لیے کسوٹی سمجھی جا سکتی ہیں ان میں سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی، مذہبی اور فن و ثقافت تک ہر طبقے کے لوگوں کے لئے امریکہ اور یورپ کے دروازے کھلے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس ملک کے غدار اور مجرم کہلانے والے اور سزا یافتہ لوگوں کے لئے بھی امریکہ اور برطانیہ میں دیدہ و دل فرش راہ کیے جاتے ہیں ان کو باقاعدہ سیکیورٹی اور محفوظ پناہ گاہیں عنایت کی جاتی ہیں لیکن مشرف شاید پاکستان کی تاریخ کی وہ واحد شخصیت ہے جو ایک سابق سپہ سالار صدر پاکستان کے عہدے پر بھی گیارہ سال فائز رہا لیکن اسے اقتدار چھوڑنے کے بعد امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی اور امریکی آقا کے حکم پر اسے پاکستان آنے کی بھی صرف اس صورت میں اجازت تھی کہ پاک سر زمین پر اترتے ہی اسے جیل میں ڈال دیا جائے اقتدار چھوڑنے کے بعد حکمرانوں کو عزت سے جینے کا حق دینے کے حوالے سے پاکستان کی نام نہاد جمہوریت کی تاریخ کوئی اچھی روایت یا مثالی نمونہ آج تک نہیں پیش کرسکی
لیکن جنرل پرویز مشرف کی غلطیوں یا کوتاہیوں سے قطع نظر انکی ایک بات قابل قدر ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک پاکستان کے خلاف یا اس کی سالمیت اور استحکام کے خلاف ایک جملہ ایک حرکت بھی ریکارڈ پر نہیں چھوڑی انہوں نے ہمیشہ ہر کڑے وقت میں "سب سے پہلے پاکستان" کا تصور دیا اور پاکستان سے عہد وفا نبھا یا امریکہ میں رہنے بسنے کے لیے امریکہ سے پردہ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور پاکستان میں زندگی کے آخری ایام گزارنے کی حسرت لئے دبئی کے ایک ہسپتال میں طویل علالت کے بعد دنیا سے رخصت ہوگئے اور اپنے وطن کی مٹی میں صرف بعد از وفات دفن ہونا نصیب ہوا
جانے والے تیرے قدموں کے نشاں باقی ہیں