farooq02
تحریر۔۔محمد فاروق عزمی
0321 4788517
Farooqazmi01@gmail.com
دسمبر اکہتر کی بات ہے میں اباجی کے پاس بیٹھا تھا۔ انہوں نے شیو بنانے کے لیے چہرے پر صابن لگا لیا تھا۔ قریب رکھے ریڈیو سے ایک خبر نشر ہوئی ،سقوطِ ڈھاکہ کی خبر ،یہ شرمناک اور غم ناک خبر سن کر اباجی نے تولیے سے چہرے پر لگا صابن پونچھ ڈالا ، میں نے دیکھا ان کے چہرے پر دکھ اور کرب کے گہرے بادل چھا گئے ہیں ان کی آنکھوں میں آنسو تھے تب میں چھوٹا تھا سمجھ نہ پایا کہ ہوا کیا ہے کئی روز تک اباجی نے شیو نہیں بنائی سر جھکائے اداس و پریشان بیٹھے رہتے۔ وہ کہتے یہ ہماری سول قیادت اور چند جرنیلوں کی بزدلی کا نتیجہ ہے افواجِ پاکستان تو ایک دلیر اور غیرت مند فوج ہے وہ خون کے آخری قطرے تک دشمن کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ انہیں قوم کی بے حسی اور ذود فراموشی کا بھی ملال تھا ۔ ان کے خیال میں وقت گزرنے کے ساتھ قوم نے ،حکمرانوں نے ، سیاسی اور فوجی قیادت نے اس سانحے کو اس طرح فراموش کر دیا کہ لگتا ہے کسی کو اتنا بھی دکھ نہیں جتنا اپنی جیب کے کٹ جانے کا ہوتا ہے۔
نئی نسل کو تو شاید اس زخم کا پتا ہی نہیں ،یہ بھی ہمارا اپنا قصور ہے ،ہم اپنے بچوں کو بتا ہی نہ سکے کہ مفاد پرست سیاست دانوں اور عاقبت نااندیش ہم وطنوں نے دشمن کی ناپاک چالوں کو کامیاب بنانے میں کیا کردار ادا کیا۔ ہم نے اپنا ایک بازو کٹ جانے پر اتنا بھی واویلا نہیں کیا جتنا شور ایک "مٹیار " کے لونگ گواچنے پر اس ملک میں برپا ہوا تھا، بچیکی زبان پر لونگ گواچنے کی دھائی تھی۔مگر مشرقی پاکستان کا غم کسی کو یاد نہ رہا۔
جس طرح ابا جی ساری زندگی سانحہ مشرقی پاکستان پر ملول و مغموم رہے الطاف حسن قریشی بھی چھے دہائیوں سے اس غم کو سینے سے لگائے جی رہے ہیں۔ یہ زخم کس طرح لگے کس نے کتنے وار کیے ،اپنے ہی دیے بجھانے کے لیے کون ہواؤں سے سازش کرتا رہا تاریخ کا یہ سچ برسوں بعد الطاف صاحب نے "مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا " کی صورت قوم کے سامنے رکھ دیا ہے۔
الطاف حسن قریشی بڑے آدمی ہیں "بڑے آدمی " قوموں کا انعام ہوتے ہیں انعام اور عطا کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ قومیں ناشکری ہو جائیں تو قدرت سزا کے طور پر " انعام اور عطا " روک لیتی ہے۔ سو لازم ہے کہ ہم الطاف حسن قریشی صاحب کا شکریہ ادا کریں۔ وہ صحافت کے ماتھے کا جھومر ہیں ان کا قلم اس شعبے کی آبرو ہے قلم و قرطاس کے کئی وارث ہوں گے جن کی تحریریں معتبر ہوں گی لیکن ان سا کوئی کہاں ہو گا جو اتنی دانشورانہ اور حکیمانہ باتیں کرے۔ مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا محض ایک کتاب نہیں بلکہ یہ ایک دستاویز ہے اور یاد رکھنے والوں کے لیے ایک سبق۔ تاریخی واقعات کی یہ زنبیل کھولیں تو اس سے احساسِ ندامت ، شرمندگی ، ذلت کے طوق ،پیشِ بتاں جھکے سروں کا ہجوم ،مکر و فریب اور سازشوں کا تعفن ،گھر کے چراغوں کی دشمن ہواؤں سے گٹھ جوڑ کرتی سرگوشیاں اور جسم و جاں کو ہی نہیں روح تک کو جھلسا دینے والی آگ کے الاؤ برآمد ہوتے ہیں۔ اہم رازوں ،تلخ حقیقتوں اور بہت سے چہروں کے نقاب نوچتی یہ تخلیق ایسی ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں اس آئینے میں اپنے ماضی کا عکس دیکھ کر حال کو سنوار سکتی ہیں یہ آئینہ امروز کو اپنے فردا کے کارآمد بنانے میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔ اس کتاب میں آپ کو مصنف کے ہاتھ میں دانش کی وہ لاٹھی نظر آئیگی جس سے ہانک کر تفرقوں میں بٹی اور بکھری اس قوم کو ایک مرکز اور مقام پر جمع کیا جا سکتا ہے قوم سے مراد یہاں پاکستانی ہیں۔قلم سے قرطاس کے سینے پر سیاہیاں ملنے والے اور تاریخ کو مسخ کرنے والے ادیب اور مورخ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں اور پھر فیصلہ کریں کہ سچ لکھنے اور سچ جاننے کے لیے کیسی کٹھن راہوں اور دشوار گھاٹیوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ الطاف صاحب نے اس چشم کشا داستان میں عصبیتوں کے شکار سیاسی رہنماؤں اور لیلائے اقتدار کی زلفوں کے اسیر عسکری مجنوؤں کے خفیہ اور پوشیدہ رازوں کو دلیری کے ساتھ بیان کیا ہے۔ انہوں نے بھارتی حکمرانوں کی سازشوں کی نقاب دری بھی جرات اور قومی و ملی حمیت سے کی ہے۔ سچ کسے برداشت ہوتا ہے ؟ تلخ حقیقتوں کو بیان کرنے کا سنگین "جرم " انہیں مارشل لاء حکام کی دھمکیوں کی صورت بھگتنا پڑتا رہا۔ وہ دو سال پابندِ سلاسل بھی رہے۔
قارئین کو حقیقتِ حال سے آگاہ رکھنے کے لیے ایک صحافی کی جو ذمہ داریاں ہو سکتی ہیں قریشی صاحب نے انہیں دیانت داری سے نبھایا۔ وہ کبھی اپنے راستے کی مشکلوں اور رکاوٹوں کو خاطر میں نہیں لائے۔
1400 سے زائد صفحات کا یہ قصہ درد نصف صدی سے زائد عرصے کے دوران لکھی گئی ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو 1962 سے سن 2000 تک ماہنامہ اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی میں شائع ہوتی رہیں۔ الطاف حسن قریشی نے پسِ پردہ حقائق جاننے کے لیے بیسیوں مرتبہ مشرقی پاکستان کا سفر کیا۔ وہ کئی کئی ہفتوں وہاں قیام کرتے سول اور فوجی بیوروکریسی میں ان کی شناسائی اور احترام تھا جہاں کہیں کوئی اہم واقعہ رونما ہوتا آپ وہاں پہنچ جاتے سیکڑوں واقعات کے وہ عینی شاہد ہیں۔ مشرقی پاکستان کے سلگتے مسائل اور محرومیوں کی آگ کو انہوں نے شعلہ جوالا بنتے اور پھر آگ کے اس دریا میں ڈھاکہ کو ڈوبتے دیکھا۔ جس سرزمین پر دسمبر 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی اسی دھرتی پر نفرتوں کی فصل اگتے ،محبتیں اور رفاقتیں جلتے ہوئے بھی انہوں نے دیکھیں اور محسوس کیں۔ بہت سے واقعات ان کے سامنے ظہور پذیر ہوئے۔ اپنے ،پرائے کیوں ہو گئے محبتیں نفرتوں میں کس طرح بدل گئیں ،غیر کی باتوں کا اعتبار کیونکر کر لیا گیا۔ کیا کیا کوتاہیاں غلطیاں اور حماقتیں سرذد ہوئیں۔ اس تبدیلی کو تاریخی تناظر میں سمجھنے اور جاننے کے لیے مصنف نے گہرا مشاہدہ اور وسیع مطالعہ کیا انہوں نے یونیورسٹی کے اساتذہ ،سرکاری افسروں ،جرنیلوں ادیبوں اور دانشوروں کی کتابوں کا ورق ورق کھنگالا یوں لاکھوں اوراق کے نچوڑ اور عرق سے کشید کیے گئے نتیجے کے بعد لکھی تحریروں کا نام "مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا " ہے۔
اس داستانِ خونچکاں میں جہاں اپنوں کی بے وفائی کا نوحہ ہے وہیں ان عظیم پاکستانیوں کا ذکر بھی ہے جو اول و آخر پاکستانی تھے۔ لسانی لحاظ سے وہ بنگالی تھے یا اردو اور پنجابی بولنے والے ، لیکن مصیبتوں اور سازشوں میں گھری اپنی مسلح افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے اور بالآخر پاکستان کی سالمیت پر جانیں قربان کر کے امر ہو گئے۔
یہ کتاب نہیں بلکہ نصف صدی پر محیط ہمہ پہلو تحریروں کا مجموعہِ عبرت و حیرت ہے۔ جریدہ عالم پر کندہ شواہد اور چشم دید واقعات سے جنم لیتی یہ داستان عبرت وہ پہاڑ ہے جس سے اپنے اپنے حصے کی ایک چھٹانک عبرت سوچنے سمجھنے والے ذہنوں کواندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لا سکتی ہے۔ اس قصہِ درد کا خلاصہ یہ ہے کہ دوبارہ ایسے زخم نہ لگیں کوئی بدباطن یہ کہے کہ تم بلوچی ہو تم سندھی ہو پنجابی یا پختون ہو تو ایک ہی صدا ابھرتی سنائی دے کہ ہم پاکستانی ہیں صرف اور صرف پاکستانی اول و آخر پاکستانی۔
بلوچستان کے حالات کو سانحہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
وہ کیا فضا تھی کہ قائد اعظم ؒکی قیادت میں پورے برِصغیر کے بکھرے ہوئے مسلمان ایک سائبان تلے جمع ہوتے چلے گئے۔پھر ایسا کیا ہوا ، کیسی ہوائیں چلیں ،کس نے نفرتوں کا زہر گھولا کہ بھری بہار کے موسم میں خزاں کی رْت اتر آئی اور سب کچھ خشک پتوں کی طرح بکھر گیا۔
تاریخ فرد کی غلطیوں سے درگزر کر لیتی ہے قوم کی اجتماعی لغزشوں کو معاف نہیں کرتی ، فاضل مصنف کی رائے میں یہ تلخیاں بھلانے اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کا وقت ہے۔ شاید اسلامی حمیت اور اخوت کی کوئی چنگاری اس خاکستر میں اب بھی باقی ہو ، راستوں میں ہاتھ چھڑا کر بچھڑ جانے والے دنیا کے میلے میں پھر مل جائیں۔ دنیا تو امید پر قائم ہے امید باقی رہے تو سفر آسان ہو جاتا ہے۔ نا امیدی کے بت گرا کر ہی منزلیں حاصل ہوتی ہیں۔کامیابیاں بلندی کی جانب لے جاتی ہیں۔ بلندی سے افق زیادہ صاف اور واضع نظر آتا ہے۔ میں مینارِ پاکستان پر چڑھ کر دیکھتا ہوں تو ڈھاکہ کا سائیکل رکشا چلانے والا " چنوں میاں " نظر آتا ہے جس کے نام کتاب کا انتساب معنون ہے ،مجھے چٹاگانگ کا ساحل اور سہلٹ کے پہاڑ بھی دکھائی دیتے ہیں ،میں دھان اور پٹ سن کے سرسبز لہلہاتے کھیت دیکھتا ہوں۔ میں پٹ سن کے ریشے اکٹھے کر کے بوری بناتا ہوں اور اپنی ساری امیدیں اس میں بھر لیتا ہوں دور کہیں سے تلاوت کی صدا آ رہی ہے ۔
ترجمہ: اور (ہم) جس سے چاہیں ملک لے لیتے ہیں۔
اے اللہ تیری رضا پہ سرِ تسلیم خم ہے۔
پھر صدا ابھرتی ہے ،کوئی بہت خوش الحانی سے کانوں میں شہد ٹپکا رہا ہے میں ہمہ تن گوش ہو جاتا ہوجاتا ہوں۔
ترجمہ: " اے اللہ ملکوں کے مالک تْو جسے چاہتا ہے ملک عطا کرتا ہے۔
تسبیح ٹوٹ جائے تو دانے بکھر جاتے ہیں انہیں پھر ایک لڑی میں پرویا جا سکتا ہے۔ فضائیں گرد آلود ہو جائیں تو بارش کی دعا کرنی چاہیے بادل برسیں تو غبار دھل جاتا ہے مطلع صاف ہو جاتا ہے در و دیوار پہ نکھار آ جاتا ہے دلوں کے میل دھونے کا نسخہ قدرت نے ہمیں عطا کیا تھا۔ میں یہ آیت سن کر خوش ہوتا ہوں یہی "نسخہِ کیمیا " ہمارے درد کی دوا ہے۔
امید کا دامن ہاتھ سے نہ سرکے ، کوشش محبت اور خلوص میں گندھی ہو تو کسے خبر کہ ٹوٹے دل جڑ جائیں ، ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل بن جائے۔