حرف ناتمام/فداشیرازی
ایک دفعہ عرب میں راہزنوں کے ایک گروہ نے پہاڑ کی چوٹی پر محفوظ جائے پناہ بنا لی اور وقتاً فوقتاً وہاں سے نکل کر شہریوں اور قافلوں پر چھاپے مارتے بادشاہ نے ان اِستحصال کی بہت کوشش کی لیکن اس میں چنداں کامیابی نہ ہوئی بالاخر ایک سراغ رساں کے خبر دینے پر شاہی لشکر نے راہزنوں کے گڑھ پر اس وقت چھاپا مارا جبکہ ایک ڈکیتی سے واپس آکر انہوں نے ہتھیار کھول دیئے تھے اور خوب راحت کے مزے لے رہے تھے ۔شاہی فوج نے تمام ڈاکوئوں کو پابہ زنجیر کر کیبادشاہ کے سامنے پیش کیا بادشاہ نے سب کو مار ڈالنے کا حکم دیا ان ڈاکوئوں میں سے ایک سبزہ خط نوجوان تھا۔ ایک وزیر کو اس کی جوانی پر ترس آگیا اور اس نے بادشاہ سے سفارش کی کہ اس نوجوان نے ابھی دنیا کا سرد و گرم نہیں چکھا اس کی جان بخشی فرمائی جائے بادشاہ کو وزیر کی سفارش ناگوار گزری اس نے برہم ہوکر کہا کہ سانپ کو مارنا اور اس کے بچے کی حفاظت کرنا عقل مندوں کا کام نہیں۔
وزیر نے عرض کی جہاں پناہ درست فرماتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ ابھی بچہ ہے اس کی طبیعت میں ابھی بدی نے جڑ نہیں پکڑی اگر نیکوں کی صحبت میں رہے تو اْمید ہے کہ ان کا اثر قبول کر لے گا۔کچھ دوسرے درباریوں نے بھی وزیر کی ہاں کی ہاں ملا دی آخر بادشاہ نے ان سب کی سفارش سے مجبور ہوکر بادل نخواستہ اس نوجوان کو چھوڑ دیا۔ وزیر اس لڑکے کو گھر لے گیا اور بڑے ناز و نعم سے اس کی پرورش کی ۔ کئی عالم و فاضل اساتذہ اس کی تعلیم کیلئے مقرر کیے یہاں تک کہ چند سال میں وہ مہذب بن گیا ۔ایک مرتبہ وزیر نے بادشاہ کے سامنے اس کی لیاقت اور عمدہ اخلاق کا ذکر کیا تو بادشاہ مسکرادیا اور کہا کہ بھیڑیئے کا بچہ آخر بھیڑیا ہی بنتا ہے خواہ وہ انسانوں میں پل کر بڑا ہو۔
اس بات کو دو سال ہی گزرے تھے کہ اس نے نوجوان نے محلے کے چند اوباشوں سے دوستی کر لی اور اس کی بدفطری عود کر آئی ۔ ایک دن وزیر اور اس کے دونوں لڑکوں کو قتل کردیا اور بے انداز دولت سمیٹ کر دوبارہ ڈاکوئوں میں جا ملا اور اس راہزنوں کی گھاٹی کو اپنا مسکن بنا لیا۔
بادشاہ کو خبر ملی تو اس نے ایک آہ سرد بھری کر کہا برے لوہے سے عمدہ تلوار کوئی کیسے بنا سکتا ہے ؟ اے عقلمند سکھانے پڑھانے سے کوئی بداصل انسان نہیں بن سکتا۔
رمضان شریف کی آمد آمد ہے ذخیرہ اندوزوں کی بدفطرتی سامنے آنیوالی ہے ۔ حالانکہ قرآن نے واضح طور پر ان اقدامات کی مذمت کی ہے ۔ اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاو مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو اوراپنی جانیں قتل نہ کرو بے شک اللہ تم پر مہربان ہے (سورہ النساء آیت نمبر 29)
کسی نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ اگر شیطان کو رمضان میں جکڑ دیا جاتا ہے تو لوگ گناہ کیوں کرتے ہیں توامیرالمومنینؓ نے فرمایا کیوں کہ اْن کے نفس خود شیطان بن چکے ہوتے ہیں اْنہیں کسی شیطان کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔بقول سرفراز شاہد
اسے ضعف بصیرت اسے ضعف بصارت ہے
ہمارے دیدہ ور سارے کے سارے ایک جیسے ہیں
رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کیخلاف اقدامات ناگزر تھے اس لیے وزیراعظم شہباز شریف ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر کا ثبوت دیتے ہوئے رمضان شریف کی آمد سے قبل ہی اس حوالے سے اقدامات شروع کردیئے ہیں اورذخیرہ اندوزوں کیخلاف کارروائی کیلئے فری ہینڈ دیدیا وزیراعظم شہبازشریف نے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف قانونی کارروائی کی بھی منظوری دیدی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت رمضان المبارک میں اشیائے خور و نوش کی دستیابی اور قیمتوں میں استحکام یقینی بنانے سے متعلق اجلاس ہوا۔اجلاس میں وزیراعظم نے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف قانونی کارروائی کی منظوری دیتے ہوئے وفاق اور صوبوں میں ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دے دیا ہے۔وزیراعظم نے رمضان سے قبل گوداموں، دکانوں اور منڈیوں میں ا?پریشن کلین اپ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سستے رمضان بازار لگائے جائیں اور قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے۔شہباز شریف کا یہ بھی کہنا تھا اشیائ کی طلب، رسد اور قیمتوں میں گڑبڑ پر متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی ہو گی۔اجلاس میں وزیراعظم نے متعلقہ حکام پر برہمی کا اظہار کیا اور خوراک کی کمی نہ ہونے کے باوجود مرغی کی قیمت میں اضافہ پر سرزنش کی۔
چونکہ ہرسال رمضان المبارک کی آمد پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور کھانے پینے کی اشیائ قوتِ خرید سے باہر ہو جاتی ہیں اور یہ تماشا پورا مہینہ لگا رہتا ہے کیونکہ مقامی انتظامیہ کو بھی اْن کا حصہ پہنچا دیا جاتا تھا اس لیے اْن ناجائز منافع خوروں کا پورا مہینہ ان ظلم اور زیادتیوں میں گزر جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ وزیراعظم کے رمضان سے قبل اقدامات سے لگ رہا ہے کہ اس مرتبہ ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو منہ کی کھانے پڑے گی اور شہریوں کو ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا جو اس سے قبل تمام ادوار میں کرنا پڑا۔