آئینہ
محمد شعیب مرزا
گزشتہ دنوں پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا اور چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال نے اپنی سربراہی میں 9 رکنی بنچ تشکیل دیا جن میں جسٹس اعجاز الحق، جسٹس منصور علی، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔ لیکن ابتداء میں ہی4 ججز نے ازخود نوٹس لینے اور دیگر نکات پر اختلاف کرتے ہوئے بنچ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی بنچ سے علیحدہ ہوئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے موقف اختیار کیا کہ ازخود نوٹس قبل از وقت ہے۔ معاملہ صوبائی آئینی عدالت میں۔ ازخود نوٹس کا اختیار انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کی تشریح ہی نہیں بلکہ آئین کا تحفظ بھی عدالت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ جسٹس منصور شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ جو کہ فیصلے کا حصہ ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ معاملہ ہائی کورٹ میںتھا اس لیے سپریم کورٹ ازخود نوٹس نہیں لے سکتی تھی اس کے لیے جلد بازی سے کام لیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدر پاکستان بھی انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں۔ لیکن سماعت کے دوران ہی صدر کے وکیل نے صدر کی طرف سے خیبرپختونخواہ میں انتخاب کی تاریخ کی ایڈوائس واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ صدر خیبر پختونخواہ میں انتخابات کی ایڈوائس نہیں دے سکتے تھے۔ حیرت ہے صدر صاحب نے قانونی مشیران سے مشاورت کے بغیر ہی پی ٹی آئی کی طرفداری کرتے ہوئے انتخاب کی تاریخ دے دی تھی۔
کل یکم مارچ کو تین دو کے تناسب سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا ہے کہ آئینی طور پر 90 دن میں انتخابات کروانا ضروری ہیں۔ فیصلے سے قبل ہی خود سپریم کورٹ کے ججوں نے جس طرح از خود نوٹس اور اس کارروائی پر جس طرح سوالات اٹھا دیئے تھے بہتر تھا کہ ازخود نوٹس معطل کر دیا جاتا۔ فیصلے میں تین دو کی اوسط اور چار ججز کے اختلافی نوٹ اور بنچ سے علیحدگی کے بعد اس فیصلے کی غیر جانبداری شفافیت پر انگلیاں تو اٹھیں گی۔
بدقسمتی سے گزشتہ چند سال کے دوران مقدس اداروں کی طرف سے خوامخواہ سیاسی معاملات میں مداخلت نے ان اداروں کی غیر جانبداری اور احترام کو مشکوک بنایا ہے جس کی وجہ سے ان اداروں کا تقدس مجروح ہوا اور ان اداروں پر تنقید کے دروازے کھلے۔ پی ڈی ایم کی جماعتوںکی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ جس طرح عدالتیں عمران خان کو حاضری کے لیے دیئے گئے وقت پر پیش نہ ہونے پر مزید وقت دیتی ہیں اور ان کے ناز نخرے اٹھاتی ہیں اس سے لگتا ہے کہ لاڈلا ابھی بھی لاڈلا ہے۔ پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب کی اس بات میں وزن ہے کہ کیا عدالتوں میں قتل، ڈکیتی، آبروریزی کے مقدمات ختم ہوگئے جو عدالتیں سیاسی معاملات میں اتنی زیادہ دلچسپی لینا شروع ہوگئی ہیں۔ مطلب یہ کہ سیاسی معاملات پارلیمنٹ دیکھے اور عدالتی معاملات عدالتیں نپٹائیں۔ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو۔
ازخود نوٹس لینے کا جواز پیش کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین نے عدالت کے دروازے پر دستک دی ہے۔ اس حوالے سے28 فروری کو معروف کالم نگار عرفان صدیقی کا کالم’’انصاف کا دروازہ اور آئین کی دستک‘‘ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جو دلچسپ بھی ہے اور دلخراش بھی۔ انہوں نے نہایت دلیل کے ساتھ قیام پاکستان سے اب تک آئین کی دستکوں اور انصاف کی چشم پوشی کے واقعات بیان کیے ہیں۔
میں اس میں ایک نکتے کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں جو بہت اہم ہے۔ وہ ہے انصاف کے دروازے پر اُردو زبان کی آئینی دستک، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 25 فروری1948ء کو دستور ساز اسمبلی کی اکثریتی قرار داد کے نتیجے میں اُردو کو سرکاری زبان قرار دیا تھا۔ اس کے بعد اُردو بار بار انصاف کے دروازے پر دستک دیتی رہی لیکن انصاف کا دروازہ کھلنا تو دور کی بات کسی نے کھڑکی سے جھانک کر بھی نہیںدیکھا کہ دنیاکی تیسری بڑی زبان جسے اقوام متحدہ نے بھی اپنی منظور شدہ زبانوں میں شامل کر لیا ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کی طرف سے اب تمام خبریں انگریزی کے ساتھ اُردو میں بھی جاری کی جاتی ہیں وہ اپنے ہی وطن میں دربدر پھر رہی ہے۔ ہمارے اوپر مسلط بیورو کریسی، اعلیٰ افسران کے انتخاب کے لیے امتحان انگریزی میں لیا جاتا ہے تاکہ ذہنی غلام ہی ہم پر حکومت کریں اور سرکاری تعلیمی اداروں سے تعلق حاصل کرنے والا متوسط درجے کا کوئی ذہین آگے نہ آ سکے۔ اور صرف مہنگے تعلیمی اداروں میں تیار کردہ بابو ہی اہم عہدوں پر مسلط رہیں۔ اُردو زبان بے چاری قائداعظمؒ کا دست شفقت سر پر لیے، آئین کی چادر اوڑھے کبھی پارلیمنٹ کے سامنے سراپا احتجاج رہی اور کبھی انصاف کے دروازوں کے ساتھ اپنا سر پٹختی رہی۔
8 ستمبر2015ء کو سپریم کورٹ نے آخر کار نفاذ اُردو کا حکم جاری کر ہی دیا۔ لیکن… نہ سرکار نے اس پر توجہ دی نہ ارباب اختیار نے۔ اپنے ہی فیصلے کی سب سے زیادہ خلاف ورزی عدالتوں نے کی اور کر رہی ہیں اور تمام عدالتی فیصلے انگریزی میںلکھے جا رہے ہیں۔
آج2مارچ کو پاکستان قومی زبان تحریک صدر جمیل بھٹی، سلیم ہاشمی اور فاطمہ قمر کی قیادت میں نفاذ اردو کا مطالبہ لیے پورے ملک میں مظاہرے کر رہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس اہم آئینی معاملے پر بھی ازخود نوٹس لے کر نفاذ اُردو کو یقینی بنائیں اور اعلان کریں کہ آج کے بعد کسی بھی عدالت میں اُردو کے سوا کسی زبان میں فیصلہ لکھنے والے کو توہین عدالتاور آئین کا مجرم سمجھا جائے گا اور اسے سزا دی جائے گی۔ اور جس طرح خراب ترین سیاسی و معاشی حالات میں 90 دن میں انتخابات کروانے کا حکم جاری کیا ہے اسی طرح90 دن میں نفاذ اردو کا حکم جاری کریں۔
آپ یقین کریں اس سے آپ اور عدالتوں کی ساکھ بہتر ہوگی، احترام میں اضافہ ہوگا، اور تاریخ آپ کو اچھے الفاظ سے یاد رکھے گی۔ آزمائش شرط ہے۔
٭…٭…٭