''نئی حکومت پرانے مسائل''


 حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود احمد سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com

وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومت سازی کے مراحل خوش اسلوبی سے طے ہوگئے۔ رواں ہفتے شہبازشریف دوسری مرتبہ وزارت عظمی کا حلف اٹھا رہے ہیں ! مسلم لیگ ن ' پیپلز پارٹی اورتحریک انصاف ایوان اقتدار میں داخل ہوچکی ہیں۔اگر یہ تینوں بڑی جماعتیں اپنے انتخابی منشور کے تحت حق حکرانی ادا کریں تو پاکستانیوں کی قسمت مہینوں میں بدل جائے۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری کا تالاب خشک ہو تاکہ اہل وطن خود کو خوشحالی کے قریب کرلیں۔ بھٹوز کی پارٹی کم ازکم تنخواہ ساٹھ ہزار روپے کرنے کی خواہش مند ہے۔ مسلم لیگ ن مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح روک کر اشیاء ضروریہ کی قیمتیں دس سال قبل کی سطح پرلانے کی خواہش مند ہے۔مسلم لیگ ن کے قائد نے پوری انتخابی مہم میں 4 روپے کی روٹی' 45 روپے کلو چینی اور 160 روپے فی لٹر پٹرول کرنے کا اظہار کرتے رہے۔ تحریک انصاف کے زعماءعوام کی مرضی اور عوامی حکومت کے دعودیدار رہے اگر سب جماعتوں کو غریب عوام کی فکر ہے تو لوگوں تک حکومتی محبت اور عشق کا اثر پہنچنا چاہیے۔ ہماری سیاست کے ''بڑوں'' کو علم ہے کہ تین کروڑ گریجویٹ بیروزگار ہیں۔ نوجوانوں کی اکثریت روزگار کے لیے مارے مارے پھر رہی ہے۔اڑھائی کروڑ بچے سکول ایجوکیشن سے محروم ہیں۔ 25 کروڑ افراد میں سے آدھے لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں!!
 ایسے حالات میں غریب لوگوں کو حکومت' سیاست دانوں اور سیاست سے کیا لینا دینا !!! غربت' مہنگائی' بیروزگاری ' مہنگی صحت وتعلیم اور امن وامان نے بے چین اور مجبور قوم کو مزید پریشان کر دیا ہے۔ والدین کو بچوں کے مستقبل کی فکرلاحق ہے۔ صنعت کاروں کو مہنگی بجلی ' گیس نے مسائل زدہ کردیا ہے۔ جب انڈسٹری کا پہیہ نہیں چلے گا تو پھر ترقی اور خوشحالی کے چراغ کیسے جلیں گے؟
مریم نوازشریف پنجاب ' مراد علی شاہ سندھ اور علی امین گنڈا پور صوبہ خیبر کے وزراء اعلی بن گئے۔ دیکھتے ہیں تین جماعتیں صوبوں میں رہنے والوں کے لیے کون سی سہولتیں متعارف کرواتے ہیں۔ ہفتہ عشرہ بعد ماہ صیام کا چاند طلوع ہوگا۔ پورے عالم اسلام میں رمضان کریم رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھولتا ہے جبکہ پاکستان میں ماہ صیام کا آغاز گرانی اور ملاوٹ شدہ اشیاءکی مہنگے دام فروخت سے ہوتا ہے۔ ذخیرہ اندوزں اور فروٹ مافیا کو حکومت کے فکر ہوتی ہے نہ انتظامیہ کا خوف… ایک شہرمیں اشیاء اورپھل کے تین تین نرخ حکومت کی کمزوری اور پرائس کمیٹیوں کی نا اہلی کا چیخ چیخ کر اعلان کرتے ہیں۔ ابھی حکومت نے یوٹیلیٹی سٹور پر منتخب اشیاءکے نرخ کم کرنے اور صوبائی حکومتوں نے رمضان بازار لگانے ہیں۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو ازسرنو فعال بھی کرنا ہے ان سب سرگرمی کے باوجود مقدس ماہ میں لوگوں کو سحری اور افطار میں ریلیف کی ٹھنڈی چھاو¿ں نہیں ملے گی۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
 یہ درست ہے کہ مہنگائی نے ہر خاندان میں مشکلات کی فصل بو دی ہے۔ مسلسل بے روزگاری کی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں جرائم کی شرح بڑھ گئی۔ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں سب سے زیادہ فریق نوجوان نظر آتے ہیں۔ پاکستانی یوتھ کو قومی تعمیر سے منسلک کرنا بہت ضروری ہے۔ حکومت کی طرف سے قرضوں کا اجرا بہتر قدم ہے تاہم اس سے بھی بڑا فیصلہ فراہمی روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔نئی حکومت سرکاری سکولوں کو پبلک اور پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے چلانے کی خواہش مند ہے۔ ایجوکیشن کمیونٹی کو قومی خدمت میں ساتھ رکھنا بہترین فیصلہ ہے یہ بھی ضروری ہے کہ ہے کہ حکومت تعلیم و صحت کی ترقی کے لیے پبلک و پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک کو ہر سطح پر اہمیت دے ،اگر ایسا ہو جائے تو وطن عزیز میں سماجی انقلاب لانے میں مدد ملے گی۔ ہمارے یہاں شعبہ صحت کو بے جا ٹیکسوں نے جکڑا ہوا ہے۔وفاقی اورصوبائی حکومتیں ٹیکس شرح میں کمی کرکے صحت دوستی کا خواب پورا کرسکتی ہیں۔ دعا ہے کہ نئی حکومت نئے چیلنجز کا اچھے انداز سے سامنا کرے۔ صوبائی حکومت کے لیے پہلا چیلنج ماہ صیام میں بڑھتی ہوئی مہنگائی روکنے کاہے، مریم نواز کو اپنے پہلے امتحان میں کامیاب ہونا ہے۔ اگر محترمہ مارکیٹ مافیا سے بچتے ہوئے رمضان المبارک میں مصنوعی مہنگائی کو کنٹرول کر لیا تو عوام سمجھیں گے کہ مریم صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ کامیابی کی بنیاد رکھ دی!!

ای پیپر دی نیشن