فیشن کا ہے یہ حلوہ۔۔۔




گزشتہ دنوں اچھرہ لاہور میں پیش آنے والے ایک واقعہ نے کئی جہتوں کی بحثوں کو چھیڑ دیا ہے۔ نمبر ون یہ کہ ہم جاہل ہیں، نمبر دو کہ ہم متشدد قوم ہیں، نمبر تین کہ ہم اچھے اعمال کیے بغیر ڈائریکٹ" کنفرم جنتی" ڈیکلئیر ہونا چاہتے ہیں۔
قارئین۔۔۔ اچھرہ واقعہ کی وائرل ویڈیو دیکھ کر پہلے حیرانی ہوئی پھر متشدد ہجوم دیکھ کر دل خون کے آنسو رویا کہ کیا حالات ہیں وطن عزیز کے۔۔۔۔ پھر اپنے حلوے کی رغبت پر خوب ہنسی آئی۔ 
قارئین!۔ وہ محاورہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ نیم حکیم خطرہ جاں، نیم ملا خطرہ ایمان۔۔۔ افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ ہم خطرہ ایمان والوں کے نرغے میں پھنس چکے ہیں اور خود بھی غوروفکر کو ترجیح نہیں دیتے نتیجتاً جہالت ہم پر مسلط ہو گئی ہے۔ اسی جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہم روز بروز متشدد ترین ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ عدم برداشت رخصت ہوتا جا رہا ہے۔
 اچھرہ بازار میں خاتون نے ایسا لباس زیب تن کیا تھا کہ جس پر عربی الفاظ پرنٹ شدہ تھے کہ جیسے کوئی عربی رسم الخط میں کیلیگرافی ہو۔ ایک صاحب نے جب خاتون کے لباس کو دیکھا تو اس کی نظر” حلوہ“ لفظ پر پڑی جس سے اس کو غلط فہمی ہوگئی کہ شاید یہ قرآنی آیت ہے اور بے ادبی ہو رہی ہے۔ اس خاتون سے کہا گیا کہ یہ لباس اتار دے۔ تھوڑی سی بحث کے بعد معاملہ گستاخی اسلام تک جا پہنچا حتی کہ خاتون کو جان سے مار دینا قرار پا گیا۔ اگر بروقت پولیس نہ پہنچتی تو شاید خاتون کے ساتھ ایسا ہوتا کہ ہم کف افسوس ملتے رہ جاتے۔قارئین سب سے پہلی بات کہ ایسا لگتا ہے ہمارے معاشرے میں یہ جانچنے کے پیمانے آگئے ہیں کہ کون نیک ہے اور کون بد۔۔ لوگ اتنے منہ پھٹ اور متشدد ہو چکے ہیں کہ بازار، چوراہوں میں باہمی جنگ و جدل کرنے سے بھی ذرا نہیں چونکتے۔ مو شگافیوں سے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ حالانکہ کسی بھی معاملے کی تحقیق کرنا سنت رسول ﷺ ہے اور اس کو فراموش کر دیتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ جب کوئی اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ کرتا ہےہم اسے گستاخ رسول کیوں نہیں کہتے اور اس کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیتے حالانکہ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ ”جو ملاوٹ کرے وہ ہم میں سے نہیں“ بحوالہ صحیح مسلم۔ تمام تر حالات کو مدنظر رکھ کر ایک ہی بات کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے قول و فعل میں کس قدر تضاد ہے۔ یہ فکر انگیز بات ہے اور علامہ قبال نے موجودہ صورتحال کی جواب شکوہ میں کیا خوب ترجمانی کی تھی کہ
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
یہ درست ہے کہ غوروفکر ، شعور کی بجائے ہم نے شور کو فوقیت دینا شروع کر دی ہے جس کے باعث آئے روز معاشرتی ڈرامے فروغ پا رہے ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا تھا کہ ” عربی سیکھو یہ دین کا حصہ ہے“۔ ہمیں عربی آتی نہیں اور عربی الفاظ میں کہے گئے” ہوں ہاں“کو بھی ہم مقدس سمجھتے ہیں۔ہم پاکستانی عرب ممالک چلے جائیں تو وہاں دیواروں پر عربی اشتہارات دیکھ کر اسے بوسہ دیتے ہیں کہ شاید ثواب مل جائے۔ سعودی عرب میں مرور زمانہ فیشن اب رواج پا رہا ہے۔ ان کی خواتین عبایا نما لباس کی ڈیزائننگ پر خوب کام کر رہی ہیں۔ وہ ایسے لباس کے ڈیزائن ترتیب دے رہی ہیں کہ جن سے ان کی تہذیب نمایاں ہو۔ مگر پاکستان میں حالیہ اچھرہ واقعہ کی شدت میں تب نرمی آئی جب مشتعل افراد کو قاری صاحب کی تفشیش سے کچھ نہیں ملا بلکہ یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ یہ سعودی ڈیزائن ہے۔ اسکے بعد ہجوم نے خاموشی اختیار کرلی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عرب ممالک کے سے نکلا فیشن حلال ہے چاہے اس میں فساد کا ہی پہلو پنہاں ہو ؟؟؟ بحیثیت قوم ہماری حالت زار تو ایک جانب رہی۔ دوسری جانب ایک مسئلہ جو سر اٹھا نہیں رہا بلکہ ہم اس میں پیوست ہو چکے ہیں وہ یہ کہ ہمارے علماءاجتہاد کو فروغ نہیں دیتے جس کے باعث پیش آمدہ مسائل کا حل ان کے پاس سرے سے ہی موجود نہیں ہے۔ علمائے کرام کی جانب سے اپنی ذمہ داری سے کوتاہی برتی جا رہی ہے۔ علمائے کرام کی بےتوجہی سے لوگ معاملات کو ہاتھ میں لینا شروع ہو گئے ہیں اور ایک دوسرے پر کفریہ فتوے لگانا ان کا شیوہ بن چکا ہے۔ نیز اقوام عالم پر کچھ ایسا تاثر آ رہا ہے جیسے اسلام جدیدیت کے تقاضوں پر پورا نہیں اتر رہا؟ ایسے میں علمائکی خاموشی کس بات کا پش خیمہ ہے؟ حکومت سے استدعا ہے کہ علماءاکیڈمیز کا فروغ کرے تاکہ دین کی فہم لوگوں تک پہنچائی جا سکے۔
علامہ محمد اقبال ” ضربِ کلیم “ کی نظم ” توحید “ میں علمائے سوءکے بار ے میں کیا خوب کہتے ہیں :
آہ اس راز سے واقف ہے نہ م±لّا نہ فقیہ
وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
الغرض فیشن چاہے عرب کا ہو یا کسی اور خطے کا۔ الفاظ لباس پر پرنٹ نہیں ہونے چاہیں کیونکہ اس سے غلط فہمی کا احتمال رہتا ہے جو شدت پسندی کو مزید تقویت دے سکتا ہے اور اسلام دینِ اسلام میں کسی ایسے عنصر کی گنجائش نہیں ہے جس سے کسی بھی قوم کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے۔

ای پیپر دی نیشن