قصہ جناب شیخ کی پیشین گوئیوں کا۔۔

دورِ ماضی میں شیخ رشید احمد پیشین گوئیاں شوقیہ طور پر کرتےاور گیٹ نمبر چار سے اپنی قلبی نسبت کا اعتراف کھلے عام کیا کرتے تھے۔ یہ چند باتیں، "میں سولہ دفعہ وزیر رہ چکا ہوں، اصلی اور نسلی ہوں جیل میرا سسرال ہے، ہتھکڑی میرا زیور ہے" تواتر اور کثرت سے دہرایا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں ریڈیو پاکستان خبروں کے ہر بلٹن میں "اطلاعات و نشریات، حج اور اوقاف کے مرکزی وزیر، مولانا کوثر نیازی" کا اتنا چرچا ہوا کرتا تھا کہ یہ الفاظ ریڈیو کے سامعین کو اب تک ازبر ہیں۔ وقت ایک سا نہیں رہتا، شیخ صاحب کی گیٹ نمبر چار سے جذباتی انسیت کو کسی کی نظر لگ گئی اور وہ محبوبیت کا مقام کھو بیٹھے۔ کچھ عرصہ غائب رہنے کے بعد جب منظرِ عام پر آئے تو انہوں نے خود کو چلہ کش کہلوا کر نئے انداز سے شہرت حاصل کی۔ وہ اپنے دورِ وزارت میں "ن"میں سے "ش" نکالنے کے دعوے کیا کرتے تھے۔ اکثر اوقات تو وہ اِس نئے وجود کے جنم کی تاریخیں بھی دے دیا کرتے تھے۔ صد حیف! اس وقت ان کی یہ امید بر نہ آ سکی۔ 
اب جبکہ ان کی یہ خواہش نما پیشین گوئی علامتی طور پر پوری ہو چکی ہے، وہ اِس پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور نہ ہی لوگوں سے داد وصول کرتے نظر آ رہے ہیں۔ شاید اس کی وجہ پی ٹی آئی اور دیرینہ مرکز سے دوری اور انتخابی عمل میں دونوں سیٹوں سے ہارنا شامل ہو۔ صرف گرگٹ ہی نہیں، آسمان بھی اپنا رنگ بدلنے میں ثانی نہیں رکھتا۔ 
8 فروری 2024ءکے انتخابی نتائج ن لیگ کی توقع اور خواہش کے برعکس جبکہ آصف علی زرداری کی سوچ کے عین مطابق آئے ہیں۔ آصف علی زرداری نے ثابت کیا ہے کہ حالات کی نبض پرکھنے میں جو ملکہ ان کو حاصل ہے، وہ کسی اور کو نہیں۔ الیکشن کمپین میں نواز شریف 'کم از کم' سادہ اکثریت حاصل کرنے کی آرزو کیا کرتے تھے جبکہ آصف علی زرداری کہتے رہے کہ انتخابی نتائج اِس طرح کے آئیں گے کہ ان کے بغیر کوئی حکومت سازی نہیں کر سکے گا۔ ان کی بات صد فی صد درست ثابت ہوئی اور نواز شریف کو بادل نخواستہ پی پی پی سے اس کی شرائط پر حکومت سازی کے عمل میں شریک ہونا پڑا اور ان کے چوتھی بار وزیراعظم پاکستان بننے کے ارمان بھی پورے نہ ہو سکے۔ نشیب و فراز کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد ن لیگ نے پنجاب میں ناقابلِ تسخیر عوامی مقبولیت حاصل کر لی تھی مگر اب یوں دکھائی دیتا ہے جیسے پی ٹی آئی نے اِس میں ناقابلِ یقین حد تک نقب لگا لی ہو۔ 
پی پی پی اور پی ایم ایل این میں، جسے شیخ رشید احمد چاہیں تو پی ایم ایل ش بھی کہہ سکتے ہیں، حکومت سازی کا عمل حالات کے نازک دھارے (razor edge) پر چلتا ہوا چار و ناچار آہستگی کے ساتھ پیش قدمی کر رہا ہے۔ ابھی حکومت قائم بھی نہیں ہوئی کہ اِس کو مختلف ناموں سے پکارا جانے لگا ہے۔ لوگ طنز و مزاح یا کڑوے کسیلے انداز میں تبصرے بھی کر رہے ہیں۔ بی بی سی نے اپنے پروگرام سیربین میں اِسے marriage of convenience قرار دیتے ہوئے کچھ سوالات پوچھے ہیں، " کبھی ہاں کبھی نہ! کیا وجہ ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا انکار آخر کار اقرار میں بدل گیا؟ جس حکومت کی legitimacy پر پہلے دن سے ہی سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہوں وہ آگے کیا کرے گی؟ 
پی پی کی اس سوچ کے پیچھے کیا ہے کہ ن لیگ کی حمایت تو کریں گے مگر وزارتیں نہیں لیں گے؟ یعنی فائدہ زیادہ اور accountability کا بوجھ بھی نہیں، حکومت چل پڑی تو کریڈٹ میں شامل، نہیں چلی تو کیا قصور ہمارا؟ پی پی کی میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کی پالیسی کو عوام میں کیا پذیرائی ملے گی؟ کیا حکومت کی ناکامی کا سارا الزام ن لیگ پر ڈالا جائے گا؟" کسی زمانے میں مہا راجہ کے لقب سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والا رنجیت سنگھ بھی پنجاب کا حکمران رہا تھا۔ ا س زمانے میں رنجیت سنگھ اور انگریز دونوں کی حیثیتیں بہت مستحکم تھیں۔ 
اگر یوں کہا جائے کہ اس وقت دونوں ایک دوسرے سے خائف رہا کرتے تھے تو غلط نہیں ہوگا۔ سندھ پر رنجیت سنگھ بھی قبضہ کرنا چاہتا تھا اور انگریز بھی۔ کسی امکانی تصادم سے بچنے کے لئے 1838ء میں رنجیت سنگھ اور انگریزوں کے درمیان Triparite Treaty (سہ طاقتی معاہدہ) پر دستخط ہوئے اور اِس میں یہ بھی طے پایا کہ مہاراجہ جنوب (سندھ) کی طرف پیش قدمی نہیں کرے گا۔ 
ڈاکٹر سنہا نے اِس معاہدے پر یوں دلچسپ تبصرہ کیا تھا، "انگریزوں اور سکھوں کے اِس معاہدے میں برطانوی حکومت سوار تھی اور رنجیت سنگھ گھوڑا تھا"۔ موجودہ حکومتی اتحاد کی تشکیل کے فارمولے میں بھی یوں لگتا ہے کہ پی پی پی سوار اور پی ایم ایل این گھوڑا ہے۔ 
سیربین میں اٹھائے گئے سوالات ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن میں بھی موجود ہیں۔ بظاہر اِن سوالات کے جوابات بھی بہت واضح ہیں مگر اکثریت بوجہ جوابات دینے سے گریزاں ہے۔ 
مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی دانشور حکومت کی کامیابی کی بات نہیں کر رہا جیسے ہر مبصر کو اتحادی حکومت کی ناکامی کا پختہ یقین ہو۔ مسلم لیگ ن کےلئے اصل مسئلہ نامساعد معاشی حالات میں نوجوان ووٹروں کو اپنی صفوں میں لانا ہے جو تاحال عمران خان کے دام الفت میں گرفتار ہیں۔ اِس ہدف کو حاصل کرنے کےلئے ملکی معیشت کو تیزی سے بہتری کی طرف لانا، نوجوانوں کےلئے تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا اور سولہ ماہ کی سابقہ حکومتی ناقص کارکردگی کا داغ دھونا اشد ضروری ہے۔ کیا شہباز شریف کے پاس سستی روٹی، سستا بازار، ییلو کیپ سکیم اور طلباءکو لیپ ٹاپ کی فراہمی کے علاوہ بھی پروگرام ہیں جو نوجوان ووٹروں کی سوچ کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہوں جبکہ شہباز شریف کے پاس نوجوان ساتھیوں کی کمی بھی ہے اور سوشل میڈیا ٹیم پی ٹی آئی کی ٹیموں سے بہت ہی پیچھے دکھائی دے رہی ہے۔
اب جبکہ ناکامی کی صورت میں پی پی پی ن لیگ کے شانہ بشانہ چلنے اور حصہ دار بننے کےلئے قطعاً تیار نہیں ہے، شہباز شریف کو اکیلے ہی یہ بھاری بھر کم پتھر اٹھانا پڑے گا۔
 رہی بات سہولت کی شادی کی، تو ماننا پڑے گا کہ اِس حکومتی بارات کے دولہا بھی شہباز شریف ہیں اور شَہ بالا بھی وہ خود ہی ہیں، تو کیا ان کے خیر اندیش جن کی کوششوں سے یہ سہولت کی شادی ہو رہی ہے، مستقبل قریب اور بعید میں وقوع پذیر ہونے والے لڑائی جھگڑوں کو نمٹاتے رہیں گے یا ایک حد کے بعد وہ بھی ہاتھ کھڑے کر دیں گے…۔ ماضی قریب کی طرح..۔ تاہم ایک بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اِس انوکھے بندھن پر کوئی خوش ہو نہ ہو دولہے میاں ضرور خوش ہیں۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن