شرارت اورفتنہ گری

 پاکستان میں انتخابات ہر دور میں متنازع ہی ہوتے ہیں یا بنا دیئے جاتے ہیں۔ الیکشن کے متنازع ہونے کے عوامل کو پرکھا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پارٹیوں کے سربراہ خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہوئے عوام کی حمایت کو اپنے حق میں سو فیصد تصور کر لیتے ہیں، ان کے اس تصور کو انتخابات میں عوام اپنی رائے دہی کے ذریعے حقیقت کا روپ دے دیتے ہیں لیکن سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں نے خوش فہمی کا اپنے گرد ایک ایسا حصار بنا رکھا ہے کہ وہ اس میں محبوس رہتے ہیں ، یہی ایک رویہ ہے جو کہ انتخابات کو متنازع بنا دیتا ہے ، لیکن الزام اسٹیبلشمنٹ کو دیا جاتا ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہی سیاسی لوگ اسٹیبلشمنٹ سے اقتدار کی بھیک مانگتے ہیں اور اگر یہ بھیک ان کو مل جائے تو ایک پیج پر ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور اگر بھیک نہ ملے تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ بنا لینا ان کا وطیرہ ہوتاہے۔
 حالیہ انتخابات کو ایک بھونڈے پروپیگنڈے کے ذریعے متنازع بنایا گیا ، جو جیتا اس نے بھی اور جو ہارا اس نے بھی انتخابات کی شفافیت کو تنقید کی نوک پر رکھا۔ خاص کر پی ٹی آئی نے جو اپنے نام کی مناسبت سے “ پی “ پریشانی ، ”ٹی “ تنگی ’ آئی “ انتشار کی عکاس ہے ، سوشل میڈیا پر پوری شد و مد کے ساتھ انتخابات کو متنازع بنایا ، اگر انتخابات شفاف نہیں تھے تو پاکستان تحریکِ انصاف نے خیبر پختونخوا ہ میں شفاف کیسے مانے۔
2018ءمیں آر ٹی ایس کی ناکامی کے باوجود قومی اسمبلی میں تحریکِ انصاف کو جتنی تعداد میں نمائندگی دے گئی تھی تقریباًٍ ا تنی ہی نمائندگی حالیہ 2024 ءکے انتخابات میں ملی ہے جس سے انتخابات کے شفاف ہونے کی دلیل ملتی ہے، دوسری دلیل مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف ( ایک حلقے سے )، جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ، چیئرمین پی پی پی بلاول زرداری (ایک ایک حلقے سے) رہنما نون لیگ سعد رفیق ، راناثناءاللہ ، روحیل اصغر،سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ محمود خان ، رہنما استحکام پاکستان پارٹی جہانگیر ترین ، اور سابق رہنما مسلم لیگ (ن) چوہدری نثار علی خان کو بھی عوام میں پذیرائی نہیں ملی اور وہ الیکشن ہار گئے۔ان حقائق کے باوجود آزاد حیثیت میں جیتنے والے پی ٹی آئی کے ممبران صوبائی اور قومی اسمبلی نے اپنی رکنیت کا حلف اٹھاتے وقت پارلیمنٹ میں اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دیں ، اور ثابت کیا کہ یہ جماعت اور اس سے وا بستہ افراد اخلاقی پستی میں اس قدر گرے ہوئے ہیں کہ انہیں سوائے شرارت اور فتنہ گری کے، ملکی استحکام ، امن و امان سے کوئی لینا دینا نہیں ، ان کی جیت میں بھی انتشار اور ہار میں بھی فتنہ گری کا عنصر غالب رہتا ہے۔ 
شرارت محاصل ہے شر سے جو کہ بدی ، فساد ، فتنہ کی ایک صفت ہے۔ تصوف میں اس سے مراد وہ برائی ہے جو غیر اللہ کی طرف رجوع کر دے ، فتنہ بھی شر سے جڑی سختی ، جھگڑا ، فساد ، ہنگامہ ،گمراہی، کفر ، گناہ، فسق و فجور ، بغاوت ، سرکشی پر مشتمل بگڑا ہوا انسانی رویہ ہے جس میں آدمی کے اندر کا فتنہ اس کے احوال میں بگاڑ پیدا کر دیتا ہے ، جس سے دل سخت اور اس کی عبادت میں بد مزگی محسوس ہو نے لگتی ہے اور وہ دین سے دور ہوتا چلا جاتا ہے ، ایسا شخص برائی کو برائی نہیں سمجھتا ، اس طرح کا فتنہ نظام مملکت میں بگاڑ پیدا کر دیتا ہے ، فتنہ پرداز جب تک گرفت سے باہر ہو گا وہ دوسرے لوگوں کے اعمال اور اخلاق کو بگاڑتا رہے گا۔
قرآن ِ حکیم کی سورہ البقرہ آیت ، 191 میں ارشادِ ِباری تعالیٰ ہے کہ ” اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی زیادہ سخت (جرم) ہے “ اگلی آیت 193 میں حکم ربِ باری تعالیٰ ہے کہ ” اور ان کو قتل کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے “ سیاسی شخصیات پر2014ء میں جو شر انگیزی اور ذاتیات پر بد اخلاقی کے وار ہوئے ان کا تسلسل ابھی تک جاری ہے ، ایسے رویوں کوکسی طور بھی ایک مہذب معاشرے میں اپنایا نہیں جا سکتا ، سیاست میں اعلیٰ اخلاقی رویوں کی پاسداری تہذیب کے دائرے میں رہ کر کی جانی چاہئے ، ورنہ انسان اور جانور میں تمیز نہیں رہتی۔
2018 ءکے انتخابات انتہائی متنازع تھے اور واضح دھاندلی کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کو حکومت دی گئی تھی ، اسکے باوجود ملک کی کسی بھی سیاسی شخصیت یا پارٹی نے کسی ملک یا آئی ایم ایف کو خط لکھ کر ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی دعوت نہیں دی تھی ،یہ انتہاءدرجے کی ملک دشمنی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے آئی ایم ایف کو انتخابات میں تحفظات ظاہر کر کے مداخلت ہی نہیں بلکہ قرض دینے سے بھی روکا ، اور دانستہ طور پر ملکی معاملات کو خراب کرنے کی بھونڈی حرکت کی ، پی ٹی آئی کی قیادت کے رویے پر شدید افسوس ہوا ،اس عمل کی ہر محبِ وطن پاکستانی مذمت کرے گا۔
ملکی استحکام اور معیشت کی بحالی کا تقاضا ہے کہ سیاست میں کشیدگی اور عدم برداشت جیسے رویوں کی نفی کی جائے ، باہم دست و گریباں ہوکر تہذیب سے عاری ہونے کا تاثر نوجوان نسل میں منتقل نہ کریں ، یہ مہذب قوموں کا وطیرہ نہیں ، پاکستان سب کا ہے ،حق جتانے کا یہ ہر گز مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ حق صرف آپ ہی کا ہے۔ حق دوسرا بھی رکھتا ہے، لیکن حق حاصل کرنے کے بھی اسلوب ہوتے ہیں جو کہ اخلاقیات ، قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر حاصل کئے جاسکتے ہیں، انتشار برپا کر کے ملک کی سا لمیت کو داﺅ پر مت لگائیں۔

ای پیپر دی نیشن