اتوار‘ 21 شعبان المعظم 1445ھ ‘ 3 مارچ 2024ئ

اس وقت فارم 45 کی نہیں 47 کی حکمرانی ہے۔ سراج الحق۔ 
ہمارے ہاں ہر الیکشن کے بعد جس طرح کوئی نہ کوئی نیا کٹا کھل جاتا ہے اس کا حل ہمارے نزدیک ایک تو یہ ہے گجر برادری کو حکومت سنبھالنے کی دعوت دی جائے کیونکہ ان سے بہتر شاید ہی کوئی کھلے ہوئے کٹے کو باندھ سکتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ بھی ہو گا کہ پورے ملک میں وہ دودھ کی نہریں بہا دیں گے چاہے وہ ناقص پاوڈر والے نقلی دودھ کی ہی کیوں نہ ہوں وہ چاہیں تو ملک کی تمام نہروں میں دریاﺅں میں تالابوں میں یہ طلسماتی پاﺅڈر ملا کر انہیں دودھ کے دریا، نہریں اور تالاب بنا دیں۔ یہ ان کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے۔ ویسے بھی گجر برادری جس طرح نقلی دودھ فروخت کر کے مالی ترقی کر گئی ہے۔ دودھ کی دکانیں شیش محل کو شرماتی ہیں۔ ان کے مالی تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ ملک میں معاشی ترقی ہو۔ بہرحال یہ تو باتوں سے بات نکل کر کہاں تک چلی گئی۔ اس وقت سراج الحق بھی الیکشن میں فارم 45 کی بجائے فارم 47 کا کٹا کھل جانے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس وقت ملک پر جو لوگ حکمرانی کے لیے آ رہے ہیں وہ فارم 45 سے نہیں 47 سے آئے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے۔ 2018 ئ میں کپتان نے 35 پنکچر کی کہانی سنا کر جو کٹا کھولا تھا وہ آخر دم تک قابو نہ آ سکا۔ اب خدا خیر کرے یہ 47 فارم والا کٹا کیا رنگ لائے گا ، کیا تباہی مچائے گا۔ اس مرتبہ تو کپتان ، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق سمیت کئی دیگر افراد بھی فارم 47 کے کٹے کے ہاتھوں سیاست کی کھیتی میں ہونے والی تباہی سے پریشان ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ علاج کسی کے پاس نہیں ہے کیونکہ جو بھی آئے گا وہ کوئی نہ کوئی کٹا کھول ہی جاتا ہے۔ جس کے بعد چاروں طرف ہی شور و غل مچتا ہے اور سب بھاگو دوڑو پکڑو کی گردان دہراتے دہراتے دوہرے ہو جاتے ہیں۔ یوں کٹے کو بھول کر اپنی اپنی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ یعنی پرانی تنخواہ پر کام کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
جام مہتاب اور نثارکھوڑو کی رکنیت ختم ہونے کے باوجود سینیٹ کے اجلاس میں شرکت۔ تقریر بھی کی۔
 ہمارے ملک میں یوں تو بے شمار عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے ہیں مگر کچھ واقعات ریکارڈ درست رکھنے کے لیے یاد رکھے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک فسانہ عجائب گزشتہ روز سینیٹ کے اجلاس میں (جسے ہم ایوان بالا بھی کہتے ہیں) پیش آیا۔ جہاں کئی سینیٹرز کی نشستیں خالی قرار پا چکی ہیں یعنی ان کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ مگر اس کے باوجود دیکھ لیں اس کے گزشتہ روز کے اجلاس میں نثار کھوڑو اور جام مہتاب نے، جن کے عہدے کی مدت ختم ہو گئی ہے۔ بڑے دھڑلے سے شرکت کی اور صرف یہی نہیں بلکہ وہاں بڑے دھوم دھڑکے سے انہوں نے تقریریں بھی کیں۔ اب یہ سمجھ نہیں آیا کہ چیئرمین سینیٹ کیا سو رہے تھے یا انہیں یاد نہیں رہا تھا کہ یہ دونوں بھی اب متروکہ ہو چکے ہیں، یعنی سابق ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اجلاس میں کیسے شرکت کی اور ناصرف شرکت کی بلکہ تقاریر بھی جھاڑیں۔ اب یقینا یہ غیر آئینی تقریریں جوشیلی ہوں گی۔ حزب مخالف نے خوب تالیاں بھی بجائی ہوں گی۔ کمال حیرت ہے کہ اس وقت بھی کسی کو یاد نہیں آیا یہ حضرات سینیٹرز تھے اب نہیں ہیں۔ یہ ایوان بالا میں کیسے گھس آئے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ جس کا دل چاہے ایوان بالا میں چلا آئے۔ یہ بڑی عجیب واردات تھی جو ہو گئی اور ہمارے بے شمار انہونے واقعات کے ریکارڈ کا حصہ بن گئی۔ کل کوئی بھی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس کے بعد ہم صرف یہی کہیں گے کہ ”کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا“ سو ان کے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ اس لیے چھوڑو سنسار کی باتوں کو کہیں بیت نہ جائے رینا“ کہہ کر ہم بھی حال میں مست ہو جاتے ہیں۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ 
٭٭٭٭٭
کراچی میں برساتی نالوں پر تجاوزات کا مسئلہ، پیسے ادا کرنے کے باوجود جگہ خالی نہ کرائی جا سکی 
سچ کہیں تو یہ صرف کراچی کا ہی نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ ہر بڑے چھوٹے شہر میں نالوں کو لوگوں نے مال مفت سمجھ کر ان پر قبضہ کرنے اور تجاوزات کی بنیاد پر دکانیں اور تھڑے بنا کر کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اب تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ نالے کہاں کہاں تھے اور ان پر کون کون سی مارکیٹ بن چکی ہے جو تھوڑے بہت کھلے نالے موجود ہیں ان میں کچرے کا اتنا ڈھیر جمع ہے کہ عام ہلکا پھلکا آدمی آسانی سے چل کر یہ نالہ " ٹپّ" سکتا ہے۔ یہ مشورہ نہیں ہے اس پر عمل کرنے والے خود ذمہ دار ہوں گے۔ کیونکہ نالوں کے پلوں پر بھی دکانیں قائم ہو چکی ہیں۔ کراچی میں تو حالت اچھی خاص ابتر ہے۔ وہاں عدالت کے حکم پر تجاوزات ہٹانے کے حکم کے بعد ان تجاوزات کے مالکان کو ادائیگی بھی کی جا چکی ہے مگر دھونس دھاندلی کے اس بھوت کا حل سوائے لاتوں کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ پیسے لینے کے بعد بھی یہ جگہیں خالی نہیں کر رہے اور ابھی تک قابض ہیں۔ اس وقت کراچی میں شدید بارش کے پیش نظر ریڈ الرٹ جاری ہو چکا ہے مگر نالوں کی حالت دیکھتے ہوئے لگتا ہے پھر پورا شہر گندے پانی کے جوہڑ میں تبدیل ہونے والا ہے جب سیلابی پانی کو نکلنے کا راستہ ہی نہیں ملے گا تو پھر وہ گلیوں اور سڑکوں پر ہی ڈیرے ڈالے گا اور وبائی امراض پھیلانے کا باعث بنے گا۔ اب انتظامیہ مزید کسی تباہی سے بچنے کے لیے فی الفور ان تجاوزات کو مسمار کرے کسی کا دباﺅ خاطر میں نہ لائے اور جو دوبارہ یہ تجاوزات قائم کرے اسے اسی نالے میں نالہ برد کیا جائے یوں ہی خس کم اور جہاں پاک ہو گا ورنہ یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہو گا۔ ہر بارش کے بعد سیلاب سے نقصان کراچی والوں کے صبر و برداشت کا امتحان لیتا رہے گا۔ انہیں اس مسئلے سے اب نجات دلانا بلدیاتی اداروں اور انتظامیہ کی اولین ذمہ داری ہے۔
٭٭٭٭٭ 
شاہد خاقان عباسی کا نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان۔
اب معلوم نہیں پہلے سے درجنوں سیاسی جماعتوں کے ہوتے ہوئے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے سے کیا حاصل ہو گا۔ سوائے اس کہ ایک نئی تانگہ یا سائیکل سوار پارٹی وجود میں آئے گی۔ اس وقت درجنوں ایسی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جن کا نہ ووٹ بنک ہے نہ عہدیدار پورے ہیں۔ وہ مشکل سے کسی بلدیاتی الیکشن میں شاید اپنے حلقے سے بھی کامیاب نہ ہو سکیں۔ اب اگر انہوں نے کوئی توپ نہیں چلائی ابھی تک تو یہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی نئی سیاسی جماعت کیا کرے گی۔ اس سے تو لاکھ بہتر تھا وہ یک رکنی جماعتوں مثلاً اعجاز الحق کی لیگ اور شیخ رشید کی لیگ جیسی جماعتوں کو یکجا کر کے کسی نئے نام سے متحدہ لیگ ہی بنا لیتے یوں کم از کم بڑے ناموں کی وجہ سے ہی اس جماعت کو لوگ پہچاننے لگتے یا اگر یہ ممکن نہیں تھا کیونکہ کوئی یک رکنی پارٹی کا چیئرمین اب اس عہدے سے نیچے آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تو شاہد خاقان کسی بڑے سیاسی جماعت میں جو ان کے وڑن کے قریب ہوتی شامل ہو جاتے یوں وزن بھی ہوتا اور لوگ اختلاف یا حمایت بھی کرتے۔ مگر شاہد اس وقت ان کی نظر میں کوئی ایسی جماعت نہیں ہے جو ان کو پسند آتی۔ یوں اب انہوں نے ایک نئی جماعت کا ڈھول بجایا ہے۔ دیکھتے ہیں اس کی تھاپ پر کون کون دھمال ڈالتا ہے اور مری تا پنڈی ایک نیا سیاسی میلہ یا سیاسی مزار وجود میں آتا ہے۔ بہتر تھا وہ چکری والے پیر چودھری نثار کے ساتھ ہی مشاورت کر کے انہیں بھی اس عمل میں شریک ہونے کی دعوت دیتے یوں مری تا پنڈی چودھری نثار، شاہد خاقان، شیخ رشید اور اعجاز الحق کی حد تک تو کہا جا سکتا تھا کہ ایک مضبوط جماعت وجود میں آئی ہے۔ ان میں سے کم از کم یہ امیدوار تو اپنی اپنی صوبائی یا قومی اسمبلی کی سیٹ جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ آگے شاہد خاقان عباسی کی اپنی سوچ ہے جو انہوں نے مناسب سمجھا وہ کر لیا۔ کم از کم بلدیاتی الیکشن میں وہ ضرور اپنی طاقت کا اصل مظاہرہ کر پائیں گے۔ آگے کیا ہوتا ہے۔ پتہ چل جائے گا ہاں اگر وہ صوبائی یا قومی اسمبلی کی خالی پر وہ قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی....طاقت آز مانے میں کیا ہرج ہے۔
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن