امریکی کانگرس کے 31 ارکان نے صدر جوبائیڈن اور وزیر خارجہ انتونی بلنکن کو ایک مراسلہ بھجوایا ہے جس میں اس امر کا تقاضا کیا گیا ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کیا جائے جب تک پاکستان میں آٹھ فروری کو منعقد ہونیوالے انتخابات میں مداخلت کی شکایات کی مکمل‘ شفاف اور قابل اعتماد تحقیقات نہیں ہو جاتیں۔ یہ مراسلہ بھجوانے والے امریکی ایوان نمائندگان کے 31 ارکان امریکی حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ خط لکھنے والے ان امریکی ارکان کانگرس کی قیادت گریگ کیسر اور سوسان وائیلڈ کر رہے ہیں جبکہ خط پر دستخط کرنیوالوں میں پرامیلا جیا پال‘ راشدہ تلیب‘ روخانہ‘ جامی راسکن‘ الیان عمر‘ کوری بس اور باربرالی بھی شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر کا شمار پاکستان کی سابق حکمران پی ٹی آئی کے ہمدردوں میں ہوتا ہے اور انکی جانب سے پہلے بھی سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کیخلاف پی ٹی آئی کی پراپیگنڈا مہم کے تناظر میں پاکستان کے معاملات پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔
ان ارکان کانگرس کے بھجوائے مراسلہ میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان پر زور دیا جائے کہ وہ سیاسی تقاریر یا سرگرمیوں کے نتیجہ میں قید کئے جانیوالے افراد کو رہا کرے اور امریکی وزارت خارجہ کے پاکستان میں موجود نمائندوں کو ایسے کیسز کی تفصیلات جمع کرنے اور انکی رہائی کیلئے کردار ادا کرنے کا کہا جائے۔ خط میں صدر بائیڈن اور وزیر خارجہ بلنکن پر پاکستان پر یہ واضح کرنے کیلئے بھی کہا گیا ہے کہ اگر متذکرہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو واشنگٹن پاکستان کی فوجی امداد بھی روک سکتا ہے۔
اس وقت جبکہ آٹھ فروری 2024ءکے انتخابات کی بنیاد پر انتقال اقتدار کے تمام مراحل طے ہو چکے ہیں اور آج 3 مارچ کو وزیراعظم کا انتخاب بھی عمل میں آرہا ہے جس کے بعد وفاق میں نئی منتخب جمہوری حکومت تشکیل پا جائیگی جبکہ صدر مملکت کے منصب اور سینیٹ کی خالی ہونیوالی نشستوں کا انتخاب بھی رواں ماہ مارچ کے دوسرے ہفتے تک عمل میں آجائیگا اور اسی طرح تمام صوبوں میں بھی منتخب جمہوری حکومتیں قائم ہو چکی ہیں جو سلطانی ¿ جمہور کے تسلسل کی علامت ہیں۔ اس مرحلہ پر امریکی حکمران جماعت کے ارکان کانگرس کی جانب سے پاکستان کے انتخابات پر سوال اٹھانے اور انتخابی عمل کو مشکوک بنانے کی کوشش پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے بھی مترادف ہے اور اقوام عالم میں پاکستان کا تشخص خراب کرنے کی بھی مذموم کوشش ہے۔ اور بادی النظر میں یہی محسوس ہو رہا ہے کہ امریکی ارکان کانگرس اپنے اس اقدام کے ذریعے مبینہ انتخابی دھاندلیوں کا الزام لگا کر پاکستان کے جمہوری نظام کو ڈی ٹریک کرنے کی سازشیں کرنے والے عناصر کے ایجنڈے پر گامزن ہیں جس کا مقصد پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے بانی قائد عمران خان کی جانب سے بھی یقیناً اسی تناظر میں جیل سے آئی ایم ایف کو مراسلہ بھجوایا گیا جس کے ذریعے اس عالمی ادارے کو پاکستان کے ساتھ بیل آﺅٹ پیکیج کا نیا معاہدہ نہ کرنے کا کہا گیا جبکہ اس جماعت کے سوشل میڈیا سیل کی جانب سے بھی پاکستان کے ریاستی اور انتظامی اداروں کیخلاف بے ہودہ اور بے سروپا پراپیگنڈا مہم تسلسل کے ساتھ جاری ہے جو پاکستان کی سلامتی کے درپے اسکے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے عزائم کو تقویت پہنچانے کے مترادف ہے۔
ویسے تو انتخابی دھاندلیوں کے الزامات ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے اور اب تک ہونیوالے کسی بھی انتخابات میں ہارنے والے امیدواروں یا پارٹیوں نے اپنی شکست خوش دلی سے قبول نہیں کی جبکہ ان الزامات کے ازالے اور دادرسی کیلئے انتخابی ٹربیونلز اور اپیلٹ کورٹس کی شکل میں مجاز عدالتی فورمز بھی موجود ہیں۔ یقیناً انفرادی سطح پر انتخابی دھاندلیوں کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا اور اسی تناظر میں دادرسی کے مجاز عدالتی فورم تشکیل دیئے جاتے ہیں مگر مبینہ انتخابی دھاندلیوں کو بنیاد بنا کر سوشل میڈیا اور دوسرے علاقائی اور عالمی فورمز پر مجہول پراپیگنڈا مہم کے ذریعے پاکستان اور اسکے اداروں کو رگیدنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے پراپیگنڈے کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔
ماضی میں بدقسمتی سے حکومتی گورننس کی کمزوری اور ایک دوسرے کی متحارب سیاسی جماعتوں میں بلیم گیم کے فروغ سے پیدا ہونیوالی سیاسی کشیدگی اور افراتفری کی فضا میں پاکستان کے بدخواہوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ پاکستان کے حالیہ انتخابات کے حوالے سے بھی بلیم گیم کو فروغ دیکر بیرونی دنیا میں پاکستان کا تشخص خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ اندرونی اور بیرونی سطح پر یہ سازشیں ہنوز جاری ہیں اور امریکی ارکان کانگرس کا متذکرہ مراسلہ بھی بادی النظر میں اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔
اس حوالے سے افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور اسکے بانی قائد عمران خان کی جانب سے پاکستان کے معاملات میں امریکی مداخلت کا ایک خود ساختہ بیانیہ تراش کر ”ایبسولیوٹلی ناٹ“ کا ڈرامہ رچایا گیا۔ عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے ”ہم کوئی غلام ہیں“ کے نعرے کے ساتھ دھماچوکڑی مچائی گئی جبکہ اب اسی پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کی جانب سے امریکہ اور اسکے مفادات کے رکھوالے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو پاکستان پر چڑھ دوڑنے کی کھلی دعوت دی جارہی ہے۔
بے شک پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے جس کے اپنے آئین اور قوانین کے تحت اپنا سیاسی‘ جمہوری‘ انتخابی نظام قائم ہے۔ اس میں کوئی سقم یا قباحت نظر آتی ہے تو اسے دور کرنے کیلئے بھی مجاز فورمز موجود ہیں جو ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کے ضامن ہیں چنانچہ کسی دوسرے ملک کا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی جواز بنتا ہے نہ اسکی اجازت دی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے سابقہ ادوار میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کے دوران امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرکے اسکے ”ڈومور“ کے تقاضے پورے کئے جاتے رہے جس سے امریکی پینٹاگون اور واشنگٹن انتظامیہ کو پاکستان پر کاٹھی ڈالنے کا موقع ملا مگر پاکستان کی جانب سے ”نومور“ کہتے ہوئے ہزیمتوں کے اس دورانیہ سے کب کی خلاصی پائی جاچکی ہے۔ اس تناظر میں ہماری نئی حکومت کو بیرونی تعلقات بالخصوص امریکہ کے ساتھ تعلقات کی پالیسی کو خالصتاً پاکستان کے مفادات کے ساتھ مربوط کرنا اور امریکی ارکان کانگرس کے مراسلہ کا دوٹوک جواب دینا چاہیے۔ اگر پاکستان نے گزشتہ امریکی صدارتی انتخابات سمیت اسکے کسی معاملہ میں کبھی مداخلت نہیں کی تو اسے بھی ہمارے اندرونی معامات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔