سوشل میڈیا کے کردار پر ہمیشہ بہت بات ہوتی رہتی ہے، یہ بنیادی طور پر معلومات کا تیز ترین ذریعہ ہے، ارباب اختیار اس کی طاقت سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ مختلف حکومتوں نے اس کے بہتر استعمال کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی، ڈیجیٹل کے مختلف پلیٹ فارمز پر جو کچھ نظر آتا ہے اس میں حقیقت ذرا کم ہوتی ہے، حکومتوں نے اسے ریگولیٹ کرنے کی طرف توجہ نہیں دی، سوشل میڈیا پر پابندی کے بجائے شائع یا نشر ہونے والے مواد کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ آج کے دور میں ڈیجیٹل میڈیا کی بہت اہمیت ہے۔ پاکستان میں اس شعبے سے جڑے ہزاروں لاکھوں افراد کا روزگار، کچن اور زندگی سوشل میڈیا سے ہونے والی آمدن سے جڑی ہوئی ہے۔ سو اس کے صرف ایک پہلو کو بنیاد بنا کر پابندی لگانا نہ تو اتنا آسان ہے نہ ہی اسے بہتر فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا کے حوالے سے اگر کسی چیز کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تو وہ صرف اور صرف مواد ہے، کون کیا کہہ رہا ہے، کیا اپلوڈ کر رہا ہے، کہاں سے مواد حاصل کر رہا ہے، اس میں اخلاقیات کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھنا بہت ضروری ہے۔ کسی بھی ایسی چیز پر پابندی کے نقصانات زیادہ ہو سکتے ہیں جیسے اس قسم کی آزادی سے معاشرے میں جھوٹ پھیلا ہے ویسے ہی بغیر تحقیق اور کڑی نگرانی کے سوشل میڈیا کے نقصانات میں اضافہ ہوا ہے۔ بہرحال ان دنوں بھی ملک میں سوشل میڈیا کا استعمال زیر بحث ہے، بات ہو رہی ہے کہ کئی روز سے ملک میں "ایکس" نہیں چل رہا، کسی کو یو ٹیوب کی فکر ہے، کوئی فیس بک کے غم میں نڈھال ہے، کسی کا انسٹا گرام کام نہیں کر رہا اور کسی کو ٹک ٹاک کا غم لاحق ہے۔ ان حالات میں سوشل میڈیا کے اثرات سینیٹ تک بھی پہنچنے والے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہر مند خان تنگی کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک، ٹک ٹاک ، انسٹا گرام ، ایکس اور یوٹیوب پر پابندی لگانے کی قرارداد سینیٹ کے ایجنڈے میں شامل کر لی گئی ہے۔ پیر یعنی چار مارچ کو ہونے والے سینیٹ اجلاس کے ایجنڈے میں فیس بک، ٹک ٹاک، انسٹا گرام، یوٹیوب اورایکس پرپابندی کے بہرمند خان تنگی کی قرارداد ایجنڈے میں شامل کر لیا گیا ہے۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ملک کی نوجوان نسل پر منفی اثر ڈالا ہے، سوشل میڈیا ہمارے مذہب اور ثقافت کے خلاف اصولوں کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہو رہا ہے، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز عوام میں مذہب اور زبان پر نفرت پیدا کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ پلیٹ فارمز کے پاک فوج کے خلاف منفی اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈے کے ذریعے ملکی مفادات کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ مفاد پرست یہ پلیٹ فارمز مختلف معاملات پر جھوٹی خبریں پھیلا نے کیلئے استعمال کر رہے ہیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جعلی قیادت کو فروغ دے کر نوجوان نسل کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چار مارچ کو اس حوالے سے سینیٹ میں ہونے والی گفتگو اہم ہو گی۔ اگر سوشل میڈیا کے نقصانات کا ذکر ہو تو سب سے بڑا مسئلہ غلط بیانی یا جھوٹ ہے، اس معاملے میں قوم کی تعمیر کی ذمہ داری کس کی تھی۔ بنیادی طور پر یہ کام سیاسی قیادت کا ہے، یہ کام اداروں کے سربراہان کا ہے، یہ کام ان کا ہے جنہیں قوم اپنا رہنما سمجھتی ہے، یہ کام مذہبی قیادت کا بھی ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں، اپنے پرستاروں، حمایت کرنے والوں میں یہ احساس پیدا کرتے کہ غلط بیانی اور جھوٹ پھیلانا ناصرف مذہبی اعتبار سے غلط ہے بلکہ معاشرے میں جھوٹ پھیلانا ملکی ترقی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے مترادف ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے جھوٹ پھیلایا گیا، بیرونی دشمنوں نے اس ہتھیار کا بہت مہارت سے استعمال کر کے ملک میں نفرت کو ہوا بھی دی اور ہمارے اپنے لوگ محض چھوٹے چھوٹے فائدے کے لیے سوچے سمجھے بغیر وہ کرتے گئے جو ہر لحاظ سے غلط ہی تھا۔ لوگ مقبولیت کی دوڑ میں حقیقت سے دور ہوئے اور آج یہ دن آیا ہے کہ سینیٹ میں بھی سوشل میڈیا پر پابندی کی قرارداد پیش ہو رہی ہے۔ جو کچھ مخصوص سیاسی سوچ رکھنے والوں نے کیا ہے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی لیکن اس پر پابندی مسئلے کا حل ہرگز نہیں ہے۔ ہمیں لوگوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنا ہے اور مخصوص مقاصد کے تحت جھوٹ پھیلانے والوں کو قابو کرنا ہے۔ یہ مشکل کام نہیں اور جنہوں نے قابو کرنا ہے جن کو قابو کرنا ہے وہ سب جانتے ہیں کہ کس کو کہاں سے لائن ملتی ہے اور کون کس کے کہنے پر بولنا شروع کرتا ہے۔ سو پابندی لگانے کے بجائے پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد اور قوانین میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ سب کو ایک ہی انداز سے دیکھنے کے بجائے بہتر حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ ایک آزادی تھی جس نے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا کیے، لوگوں کو شعور بھی ملا، لوگوں نے اس کا غلط استعمال بھی کیا ہے اس لیے جن لوگوں نے غلط استعمال کیا ہے ان کی وجہ سے سوشل میڈیا کو درست استعمال کرنے والوں کو تو سزا نہیں ملنی چاہیے۔ بنیادی طور پر اس معاملے میں صحافتی تنظیموں کو بھی مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔نمایاں میڈیا ہاؤسز کی طرف سے اس طرح کے مسائل سامنے نہ آنے کی وجہ ایڈیٹوریل پالیسی اور احتساب کا نظام ہے ہمیں اسی انداز میں آگے بڑھنا ہے تاکہ نہ تو لوگ متاثر ہوں اور نہ ہی ہم اس کے فوائد سے محروم ہو سکیں۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہر آزادی آپ پر کچھ پابندیاں بھی عائد کرتی ہے۔ کوئی آزادی ذمہ داری اور پابندی کے بغیر نہیں ہوتی۔
آخر میں راحت اندوری کا کلام
دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
موت کا زہر ہے فضاؤں میں
اب کہاں جا کے سانس لی جائے
بس اسی سوچ میں ہوں ڈوبا ہوا
یہ ندی کیسے پار کی جائے
اگلے وقتوں کے زخم بھرنے لگے
آج پھر کوئی بھول کی جائے
لفظ دھرتی پہ سر پٹکتے ہیں
گنبدوں میں صدا نہ دی جائے
کہہ دو اس عہد کے بزرگوں سے
زندگی کی دعا نہ دی جائے
بوتلیں کھول کے تو پی برسوں
آج دل کھول کر ہی پی جائے