سرنگ سے خطرناک افغان قیدیوں کی رہائی.

May 03, 2011

انور سدید
افغانستان کے صوبہ قندھار میں جواں ہمت اور بہادر آزادی پسند طالبان نے گزشتہ روز نیٹو اتحاد اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ایک سرنگ کے رستے 476 جاں باز قیدیوں کو رہا کرا لیا۔ انگریزی اخبار ”ٹائم“ نے لکھا ہے کہ قندھار میں یہ قید خانہ دریائے ارغان ڈب کی وادی میں واقع ہے اور اس قید خانے میں امریکہ اور نیٹو فوج کے ارکان ہر وقت اپنی نظر میں رکھتے تھے اور ان کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی لیکن افغان طالبان کی جرا¿ت، دلیری اور منصوبہ بندی کی داد دیجئے کہ انہوں نے اس قید خانے کے ایک قریبی مکان کے اندر سے 1050 فٹ لمبی سرنگ کھودی اور اسے جیل کے صحن میں جا کھولا اور 476 جنگجو¶ں اور 125 دوسرے قیدیوں کو نکال لیا۔ نیٹو افواج کے نزدیک یہ قیدی انتہائی خطرناک عسکری تھے اور افغانستان کے مختلف محاذوں پر افغان اور نیٹو فوج کے افراد کو لقمہ اجل بنا چکے تھے۔ یہ عسکریت پسند طالبان کو خفیہ طور پر اسلحہ اور بارود بھی فراہم کرتے تھے اور اپنی آزادی کی جنگ میں شریک ہو جانے کے لئے نوجوانوں کو تربیت بھی دیتے تھے۔ ان قیدیوں کے فرار نے گزشتہ موسم سرما کی نیٹو کی کامیابیوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق متذکرہ بالا سرنگ کھودنے میں کم از کم پانچ مہینے صرف ہوئے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق سرنگ کھودنے والوں کو قید خانے کے نگرانوں کا تعاون حاصل تھا۔ سرنگ میں سے رینگ کر نکلنے کےلئے بھی کم از کم پانچ فٹ مربع کی سرنگ کھودنا ناگزیر ہے۔ اس لحاظ سے قریباً 27 ہزار مکعب فٹ مٹی نکالی گئی اور اسے مناسب طریقے سے اس طرح ٹھکالنے لگایا گیا کہ کسی امریکی نگران فوجی کو خبر تک نہ ہوئی اور پھر رات کی تاریکی میں 601 کو رہا کرا لیا گیا۔ افغان طالبان نے اس جرا¿ت مندانہ واردات کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ افغانستان میں کٹھ پتلی کرزئی حکومت کے ایک ترجمان یوسف احمدی نے کہا ہے کہ فرار ہونے والے قیدیوں میں 106 طالبان کمانڈر بھی شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جس رات رہائی عمل میں آئی اس رات ڈیوٹی پر فائز جیل کے تین افسر طالبان کی معاونت کر رہے تھے اور انہیں سرنگ کا منہ کھولنے سے قبل خبردار کر دیا گیا تھا۔ قیدیوں کی رہائی کا عمل رات کے گیارہ بجے شروع ہوا اور صبح چار بجے تک کسی مزاحمت کے بغیر جاری رہا۔ انگریزی اخبار ”ٹائم“ کے مطابق اس واقعے کے منکشف ہونے کے بعد سیکورٹی سخت کر دی گئی اور رہائی پانے والے قیدیوں کی تلاش بھی شروع کر دی گئی۔ چنانچہ ایک خبر کے مطابق 71 رہائی حاصل کرنے والے افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ایک فوجی افسر نے بیان دیا کہ تلاش کے دوران ہمیں جو شخص بھی ننگے پا¶ں نظر آتا ہے، اسے ہم پکڑ لیتے ہیں کیونکہ مفرور قیدیوں میں کسی کے پاس جوتے نہیں تھے۔ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے اس واردات کو تباہ کن قرار دیا ہے۔ افغانستان کے وزیر انصاف حبیب اللہ غالب نے اس واقعے کی ذمہ داری افغان نیٹو اور امریکی خفیہ ایجنسیوں پر ڈالی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ جیل کے عملے کی معاونت کے بغیر یہ کام ممکن نہیں تھا۔ ایک اور بڑے سرکاری افسر غلام دستگیر نے کہا ہے کہ جیل سے فرار ہونے والے قیدی سرحد کے پار محفوظ ٹھکانوں میں پناہ حاصل کر چکے ہیں۔ افغانی جیل سے قیدیوں کو فرار کرانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل جون 2008ءمیں ایک جیل پر خودکش بم دھماکہ کر کے 900 قیدیوں کو رہا کرا لیا گیا تھا۔ مارچ 2010ءمیں خودکش بمباروں نے جیل کے قریب بم دھماکہ کر کے 30 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ امکان یہ ہے کہ بمبار جیل پر حملہ کر کے قیدیوں کو چھڑانا چاہتے تھے۔ ایک انتہائی محفوظ جیل سے قیدیوں کے متذکرہ فرار نے نیٹو اور امریکی فوجیوں کو شدید خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ بالواسطہ طور پر اس قسم کی آوازیں تو عرصے سے ابھر رہی ہیں کہ افغانستان کو کوئی بیرونی طاقت زیر نگیں نہیں کر سکی۔ ماضی قریب میں اس کی مثال سوویت یونین کی پسپائی نے پیش کی ہے۔ لیکن امریکہ نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا اور نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اس قدر مغلوب الغضب ہو گئے کہ انہیں اپنی تقریر کے دوران انہوں نے ” صلیبی جنگ“ تک کے الفاظ کر ڈالے اور 2001ءمیں افغانستان میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد عراق پر حملہ کر دیا لیکن مناسب موقع ملنے پر جب طالبان کے جوابی کارروائی شروع کی تو یہ جنگ پھیلتی چلی گئی اور اب جولائی 2011ءمیں بارک اوباما نے افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کا پروگرام دے دیا۔ امریکہ کےلئے یہی مناسب ہے کہ افغانستان سے افواج کے انخلا کو 2014ءتک طول نہ دے بلکہ ”نئی ایگزٹ سٹریٹجی بنائے اور افغانستان سے نکل جائے۔ اس انخلا سے پاکستان میں اور پورے جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں امن قائم ہو جائے گا۔ 10 ما¶نٹین ڈویژن کے کمانڈر مائیک کرک پیٹرک کا خدشہ بجا ہے کہ لڑائی کا اب جو موسم شروع ہونے والا ہے اس میں طالبان کے حملے شدید ہو جائیں گے اور وہ اپنا کھویا ہوا علاقہ واپس لینے کےلئے دست بدست لڑائی کا سلسلہ بھی شروع کر سکتے ہیں۔
مزیدخبریں