وقت بے رحم واقعات کے تسلسل سے آنکھ مچولی کرتا ہوا ”قومی انتخابات“ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ضعیف و ناتواں نگران حکومتیں غیر آئینی الیکشن کمیشن کے ”ضابطہ ہائے اخلاق“ کی تنفیذ و تکمیل کا تکرار کرتے ہوئے قوم کو صاف و شفاف قیادت کی فراہمی کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہیں۔ ایک طرف کراچی، حیدر آباد، کوئٹہ، پشاور اور فاٹا میں آئے روز سیاستدانوں اور پارٹی دفاتر پر خودکش حملوں کا نیا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور دوسری طرف ہزاروں امیدواروں کے درمیان انتخابی دنگل سجنے جارہا ہے۔ قوم کو مبارک ہو کہ انکے بیشتر ”نجات دہندہ“ انتخابی نشان اور پارٹی کی معمولی تبدیلی کے ساتھ کم و بیش وہی ہوں گے جو گذشتہ کئی دھائیوں سے چلے آرہے ہیں۔ ہاں فرق یہ ہوگا کہ سابقہ حکمران اب ذرا بزرگ ہوگئے ہیں اور ان کے دائیں بائیں انکے بیٹے، بھتیجے یا پوتے نواسے قطار در قطار کھڑے نظر آئینگے۔ یہ ہےں مستقبل کے پاکستان کی تےارےاں۔۔۔ جو آج کل اپنے عروج پر ہیں۔بدقسمتی سے نسل در نسل کرپشن اور لوٹ مار کے اس کھیل کو ہمارے ہاں جمہوریت کا نام دے دیا گیا ہے۔ جمہورت کسی فوجی ڈکٹیٹر سے بچی رہے تو اسے کو ہر پانچ سال بعد ”پروان چڑھانے“ کیلئے انتخابی معرکے بپا ہوتے ہیں جن میں کرپٹ نظام کے محافظ دولت، اسلحہ، دھونس، دھاندلی اور ہر ممکنہ فراڈ کو بروئے کار لاتے ہوئے سادہ لوح عوام سے دھوکا کرکے اقتدارکے ایوانوں میں براجمان ہوجاتے ہیں۔ جو ایوان قانون سازی کیلئے بنائے گئے ہیں وہاں سرمایہ جمع کرنے کیلئے ساز باز کا کام کیا جاتا ہے۔ باقی قومی اداروں کی تباہی کا اندازہ آپ خود کرلیں۔ اسکی تازہ مثالیں آپ کو گذشتہ حکومتی ایوانوں سے ملیں گی جہاں مدت ختم ہونے کے بعد بھی آخری لمحے تک ڈویلپمنٹ فنڈز کے نام سے دل کھول کر سابق وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم نے ہر حلقے کے نمائندوں کو نوازا جو اب ان کی الیکشن مہم پر خرچ ہورہا ہے۔ حتی کہ آئندہ جون تک کے بجٹ کا پیسہ بھی یہ ”عوام دوست“ نمائندے مارچ میں لے اڑے ۔ہیں اب خزانہ خالی ہے اور سننے میں آرہا ہے کہ نگران حکومت کے پاس چند ہفتوں کا زر مبادلہ باقی ہے، صاف ظاہر ہے خالی کشکول لے کر حکومتی کارندے پھر اپنے انہی آقاﺅں کے پاس جائیں گے جنہوں نے پہلے سے ہمارے لئے شکنجے بناکر رکھے ہوئے ہیں۔جمہوریت، عوامی خدمت اور ملکی خوشحالی جیسے خوشنما الفاظ کا استعمال اب ایک بے معنی روایت کے طور پر باقی ہے ورنہ فی الحقیقت پاکستان میں ہر کہیں بدترین آمریت، عوام دشمنی اور ملکی وسائل کی لوٹ مار جاری ہے۔ جن عرب ریاستوں میں بادشاہت اور شہنشاہیت جاری ہے یا جہاں آمریت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے وہاں تو ایک حکمران یا اس کا خاندان وسائل کی لوٹ مار کے جرم میں ملوث ہیں لیکن ہمارے ہاں اس نام نہاد جمہوریت کے پردے میںہزار ہا افراد اور ان کے خاندان لوٹ مار اور کرپشن کے حصہ دار ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ گذشتہ سال ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پہلی بار ناصر باغ کے جلسہ عام میں اس نظام کی خرابیوں اور اس کے محافظ کرداروں کا پردہ چاک کیا تھا۔ ان کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ آئندہ انتخابات حقیقی جمہوری نظام کے آئینہ دار ہونے چاہئیں جس کے لئے الیکشن کمیشن کا ذمہ دار اور دیانتدار ہونا سب سے ضروری ہے چنانچہ ان کے اس بنیادی مطالبے کے عجیب مطالب گھڑے گئے اور انہیں بیرونی قوتوں کا ایجنٹ کہہ کر سکروٹنی اور احتساب کی ضرورت کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔ اب جو صورت حال ابھر رہی ہے وہ نہایت گھمبیر نظر آرہی ہے۔ ماسوا چند لوگوں کے انتخابی دنگل میں حصہ لینے والوں کی اکثریت ٹیکس چور، رسہ گیر، کرپشن میں ملوث اور راشی لوگوں پر مشتمل ہے۔ ایسے لوگوں کی موجودگی میں اگر سو سال بھی انتخابات ہوتے رہیں تو حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔شریف شہری اسی طرح اپنی بنیادی ضروریات کو ترستے رہیں گے اور یہ جدی پشتی چور اچکے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنی تجوریاں بھرتے رہیں گے۔ امیدواروں سے اس مرتبہ سکروٹنی کے نام پر جو مضحکہ خیز سوالات کئے گئے وہ پوری دنیا میں پاکستان کے عدالتی نظام کو بدنام کرچکے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ موجودہ حالات میں ”الیکٹ ایبل“ لوگ ہر طرح کی مالی کرپشن میں ملوث ہیں مگر کسی ریٹرننگ افسر نے کسی رشوت خور بنک کرپٹ، جعلی ڈگری ہولڈر اور بڑے سے بڑے نادہندہ کو نااہل قرار نہیں دیا۔ اب جب کہ تقریباً سب بڑی چھوٹی مچھلیاں اپیل کے بعدآب کوثر سے غسل کرکے پاک صاف ہوچکی ہیں۔ لوگوں کو اب سمجھ آرہا ہے کہ الیکشن کمیشن دراصل آنکھیں بند کرکے پرانے چہروں کوہی قومی سیاسی دھارے میں رکھنے پر مصر ہے۔ حالانکہ ان امیدواروں میں کروڑوں اربوں کے قرض معاف کروانے اور ملک کا سرمایہ لوٹ کر اپنی جائیدادیں بنانے والے افراد بدستور شامل ہیں۔ اب وہ لوگ جو ڈاکٹر صاحب کے احتجاج پر تنقید کررہے تھے، برملا انکے موقف کی تائید کرتے نظر آتے ہیں، مگر یہ بے وقت کی راگنی ہے۔ اس نظام زر کے تمام نمائندگان خواہ ان کا تعلق انتخابی معرکوں سے ہے یا وہ ان کے تائید کنندگان اینکر پرسن اور کالم نگار ہیں یا پھر کسی اور شعبے سے وابستہ ہیں۔ سب کے سب پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ اب تو وزارت اطلاعات کے خفیہ فنڈ کے حصہ دار بعض ”معزز صحافیوں“ کے چہروں سے بھی شرافت اور دیانت کے پردے چاک ہوچکے ہیں۔ آہستہ آہستہ تمام طبقات طشت از بام تو ہوں گے مگر اس وقت تک شاید بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ مملکت خداداد کے خلاف عالمی سطح پر سنگین سازش پنپ رہی ہے جس کا ایک پہلو دہشت گردی سے پروان چڑھ رہا ہے اور دوسرا سیاسی اور معاشی کرپشن سے۔ پہلے تو کوشش یہی جاری ہے کہ انتخابات ہو ہی نہ سکیں اور اگر ہوبھی جائیں تو ایسے لوگ اسمبلیوں میں آئیں جو حسب دستور استعماری طاقتوں کے مہرے ہوں۔ اس نازک اور حساس موقع پر جہاں سیاسی اور مذہبی قیادتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قابل عمل قومی لائحہ عمل مرتب کرکے آگے بڑھیں باہمی اختلافات کو کم سے کم کریں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے اپنے اپنے منشور اور پروگرام کی بات کریں۔ جہاں تک عوام کی ذمہ داری کا تعلق ہے تو وہ سب سے بنیادی ہے کیونکہ وہی سب سے زیادہ متاثر بھی ہوتی ہے اور اس کرپٹ نظام کو جاری رکھنے کی ذمہ دار بھی۔ انتخابات کا عمل محاسبے کا عمل ہوتا ہے نمائندوں کو سابقہ ریکارڈ کی روشنی میں چھان پھٹک کر منتخب کیا جانا چاہئے۔ ورنہ سب خرابیوں کا بوجھ ان کے اپنے کاندھوں پر ہی پڑیگا۔ حضور نے فرمایا ہے ”مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاسکتا“ مگر ہم کیسے اہل ایمان ہیں جو ملک و ملت کی تقدیر بدلنے کے لئے پرعزم ہیں مگر اسی نظام سے گذشتہ 65سالوں سے ڈستے چلے آرہے ہیں۔ مستقبل کے پاکستان میں مثبت تبدیلی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک اس کرپٹ نظام کو سہارا دینے والے عوام درست فیصلے کرنے کے اہل نہیں ہوں گے۔
نئے پاکستان کی ”تیاریاں“
May 03, 2013