سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سویلین مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو برسرِ اقتدار آئے اور پھر جیسے تیسے ملک میں جمہوری سفرکا آغاز ہوا اور اس طرح آئین پاکستان متفقہ طور پر منظور ہو کر قوم کو ملا اس جمہوری دور میں خود پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریاتی اور بنیادی کارکنوں کے علاوہ بعض سینئر رہنماو¿ں سے جو سلوک ہوا اس کی تفصیل پاکستان کی تاریخ میں رقم ہو چکی ہے۔ مختار رانا سے لے کر جے اے رحیم اور پھر معراج محمد خان تک بے شمار سینئر پارٹی رہنماو¿ں کو زیر عتاب رکھا گیا ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں قومی انتخابات کا انعقاد ہوا لیکن بدقسمتی سے یہ انتخابات بوگس اور دھاندلی والے انتخابات قرار پائے جو ملک میں ایک بار پھر مارشل لاءکا راستہ ہموار کر گئے یوں جنرل ضیاءالحق مرحوم نے گیارہ سال تک ملک میں اپنی آمریت برقراررکھی۔ اس دور میں جو کچھ ہوا اس کی سزا پوری قوم ابھی تک بھگت رہی ہے۔ ضیائی مارشل لاءکے دور میں فوجی گملوں میں پروان چڑھنے والے سیاسی پودے آج پاکستان کی سیاست میں تن آور درخت بن چکے ہیں اب ملک میں عملاً کم و بیش ایک ہفتہ قومی انتخابات کے انعقاد میں رہ گیا ہے اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بڑے واضح الفاظ میں قوم کو بتا دیا ہے کہ اب قومی انتخابات ہر حال میں 11 مئی کو منعقد ہوں گے۔ اس کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی سمیت چند چھوٹے سیاسی گروپس اپنے آپ کو احتجاجاً انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے حیلے بہانے تلاش کر رہے ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ خبریں بھی عام ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری پاکستان کے قومی انتخابات کے حوالے سے امریکی پالیسی طے کرنے میں اپنی شٹل ڈپلومیسی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق صدر زرداری اور جنرل کیانی دونوں ہی کو امریکی حکومت دو سال کے لئے مزید پاکستان میں برسراقتداررکھنا چاہتی ہے کیونکہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاءکے موقع پر امریکی اسلحہ اور دیگر جنگی سازوسامان پاکستان ہی کے راستے واپس جانا ہے پاکستان کے ان دونوں بڑوں کے ساتھ امریکی مشاورت کا عمل بھی مکمل ہو چکا ہے اور اس طرح حکومت پاکستان نے امریکی حکومت کو یقین دہانی کرا رکھی ہے کہ امریکی جنگی سازوسامان پاکستان کے راستے محفوظ طور پر لے کر جانے میں پاکستان کا بھی مفاد ہے مگر ملک کے دیگر قومی سیاستدانوں اور بیورو کریسی کے چند اہم پالیسی ساز اداروں نے ابھی تک امریکی پلان سے اتفاق نہیں کیا آج کل کراچی ، کوئٹہ اور پشاور میں جو کچھ ہو رہاہے اس امر کا ثبوت ہے کہ بعض غیر ملکی طاقتیں اپنے مفادات کے لئے پاکستان میں 11 مئی کو ہونے والے قومی انتخابات میں تاخیر کروانے اور اپنے من پسند سیاستدانوں کو اقتدار میں لانے کی ڈپلومیسی پر کام کر رہی ہیں اسی سلسلے میں چند ماہ قبل ڈاکٹر طاہر القادری اور اب جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے یہ بھی اسی گیم کا حصہ ہے۔ لگتا ہے کہ اسی گیم کو لے کر اب رحمن ملک سرگرم ہو چکے ہیں کراچی میں مسلسل دو دنوں میں ایم کیو ایم، اے این پی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماو¿ں کی مشترکہ پریس کانفرنسوں میں جو حقائق اورخدشات بیان کئے گئے ہیں ان سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ رحمان ملک اپنے اس مشن میں ایم کیو ایم اور اے این پی کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں اور ملک کی ابھرتی ہوئی سیاسی قوتوں خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے خلاف جو زہر اُگل رہے ہیں اس کا واحد مقصد انتخابات میں خونریزی کروانا اور قوم کو مختلف گروہوں میں تقسیم کروانا ہے یعنی اپنی مخالف سیاسی قوتوں کو طالبان کا نمائندہ کہنا انتہائی خطرناک کھیل ہے۔ ملک کے موجودہ حالات میں سابق حکومت کے قومی سلامتی کے محافظ اگر ملک کی سیاسی قوتوں کو محض اس بناءپر طالبان سے نتھی کر رہے ہیں کہ ان کے اتحادی گروپ اور خود پیپلز پارٹی اپنا ووٹ بنک بری طرح سے کھو چکی ہے۔ یہ پاکستان کے عوام کے ساتھ ایسا کھلواڑ ہے کہ جس پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا ان قومی انتخابات کی مہم کے دوران قد کاٹھ بڑھا ہے اور عوام میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے تو اس کی وجہ سابق حکومت اور اس کی اتحادی پارٹیوں کی پانچ سالہ ناقص کارکردگی ہی ہے۔ گزشتہ دور میں ملکی تاریخ کی ریکارڈ کرپشن ہوئی ہے ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے احکامات کو نہ ماننے کی نئی روایت قائم ہوئی ہے اب جبکہ پوری قوم چند روز بعد اپنے نمائندوں کا چناو¿ کرنے جا رہی ہے اس موقع پر پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے رہنماو¿ں کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔ دہشت گردی کی لپیٹ میں تو پورا ملک ہے کراچی، کوئٹہ، پشاور اور دیگر قصبوں میں انتخابی حلقوں میں دھماکوں کی وارداتوں میں ملوث ایسے گروہ شامل ہو چکے ہیں جو کہ جرائم پیشہ مافیا کی پشت پناہی میں اپنی کارروائیاں کرتے ہیں اور یہ اطلاعات بھی ہیں کہ بعض سیاسی گروپس ان مافیا کو جان بوجھ کر استعمال کرواتے ہیں تاکہ ان انتخابات میں سیاسی فضا مزید کشیدہ ہو جائے اور عوام اپنے ووٹ کے حق سے بھی محروم رہیں اور پھر انتخابی حلقوں میں ان مافیاز کے ڈر اور خوف سے چند مخصوص شخصیات کے دوبارہ اقتدار میں لانے کا راستہ ہموار ہو۔ ان حالات میں الیکشن کمشن آف پاکستان اور ملک کے خفیہ اداروں کو چوکنا رہنا ہو گا اور بلا امتیاز انتخابی مہم کے دوران ایسے واقعات میں ملوث سیاسی گروہوں کی نشاندہی کر کے ان کو انتخابی عمل سے الگ کرناہوگا۔ پوری قوم اس امید کے ساتھ انتخابی عمل کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور اس امید پر کہ شاہد اب ملک میں روشنی کی نئی کرن نکلنے والی ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک قومی سیاسی پارٹیوں کا انقلابی منشور سامنے ہی نہیں آیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف اور دیگر سیاسی پارٹیاں جو کہ انتخابی عمل میں سرگرم ہیں ان پارٹیوں نے عوام کو ریلیف دینے اور خاص طور پر امریکی تسلط سے نجات حاصل کرنے کے علاوہ کشمیر کے بارے میں کوئی واضح حکمت عملی وضع کی ہی نہیں اب جبکہ چند روز بعد انتخابی عمل کے تمام مراحل کے بعد ایک نئی حکومت کا وجود سامنے آئے گا۔ پاکستان کی خارجہ، داخلہ اور معاشی پالیسیوں کے حوالے سے قومی سیاسی پارٹیوں کے تھینک ٹینک کو اب قومی مفادات کے پیش اپنی دوٹوک اور عوام دوست پالیسیوں کو عوام کے سامنے پیش کر دینا چاہیے تاکہ عوام اپنے ووٹ کے استعمال کے وقت درست نمائندوں کا چناو¿ کر سکیں تاہم مستقبل میں مخلوط حکومت ہی بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اب ان قومی سیاسی پارٹیوں کو مخالفت اور تنقید کی پالیسی کو ترک کر کے ملکی مفاد میں اپنے مشیروں اور پالیسی ساز رہنماو¿ں کا مشترکہ پینل بھی تشکیل دے دینا چاہیے تاکہ حکومت کے وجود میں آتے ہی عوام کو ریلیف ملے۔ ایسا نہ ہو کہ پھرچند ماہ بعد نئی حکومت کے خلاف بھی عوام سڑکوں پر ہوں اور ملک ایک بار پھر غیر یقینی کی صورت حال سے دوچار ہو جائے اس سال کے اختتام تک ملک میں تین بڑوں یعنی صدر مملکت ، چیف آف آرمی سٹاف اور چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے عہدوں سے ریٹائرہونا ہے اور ساتھ ہی دوسری جانب افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلاءبھی ہونا ہے۔ افغانستان اب ماضی کی نسبت یکسر بدل چکا ہے اور اس سرزمین پر طالبان بھی ہیں، امریکی فوجی اڈے بھی برقرار رہنے ہیں اور خطرناک بات جوکہ پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہاں بھارت کی موجودگی بھی برقراررہے گی اور افغانستان میں بھارت نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں ان تمام حالات میں رحمن ملک، ایم کیو ایم اور اے این پی کے رہنماو¿ں کا واویلا ملکی سلامتی کے لئے سوالیہ نشان ہے۔آخر کس کے ایجنڈے پر رحمن ملک اور ان کے سابق اتحادی عمل پیرا ہیں؟ قوم کو اب خود فیصلہ کرنا ہو گا کہ ملک میں حقیقی قیادت کو منتخب کرنا ہے یا پھر ایک بار غیر ملکی ایجنڈے کو سرزمین پاکستان پر مسلط کر کے نام نہاد عوامی نمائندوں کو اقتدار کے ایوانوں تک رسائی دلوانی ہے؟ 11 مئی کوہونے والے قومی انتخابات پاکستانی تاریخ میں انتہائی اہمیت کے حامل انتخابات ہوں گے۔ ان قومی انتخابات کو 1977ءکے انتخابات جیسے بنانے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی دوسری انتخابی ٹرم کے لئے ان انتخابات کو اپنے نادان اور مفاد پرست ساتھیوں کی وجہ سے دھاندلی والے انتخابات بنا کر رکھ دیا تھا اس وقت بھی ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری کی موجودگی میں پیپلز پارٹی کے چند رہنما جن میں رحمان ملک سرفہرست ہیں یہ اپنی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ان انتخابات کو متنازعہ بنانے کی سازش میں ملوث ہیں اور اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ وہ اپنے مدِمقابل سیاسی رہنماو¿ں کو طالبان کے نمائندے تک قرار دینے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ اگر اب بھی احتیاط سے کام نہ لیاگیا تو پھر یہ قومی انتخابات بھی 1977ءکے انتخابات جیسے حالات کی صورت اختیار کر جائیں گے او رانتخابات کے بعد قومی سطح پر ایک نیا بحران پیدا ہو سکتا ہے جو نہ صرف پاکستان کے جمہوری سفر کو اپنی لپیٹ میں لے سکتاہے بلکہ قومی اداروں میں بھی تصادم کی شکل اختیار کر جائے گا جس سے پاکستان کی سالمیت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔